واشنگٹن (وسیم عباسی) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سی پیک میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیاں ہر سال کروڑوں روپے کی ٹیکس چھوٹ حاصل کر رہی ہیں لیکن چینی کمپنیوں کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ ’’فری لنچ‘‘ ہرگزنہیں ہے ،یہ سی پیک میں 56ملین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کی وجہ سے ہے تا ہم انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سی پیک سے حاصل ہونے والے فوائد او ر اخراجات کے حوالے سے ہوشمندانہ فیصلے لینا ہوں گے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے اکنامک فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا امریکہ خود اپنے ہمسایہ ممالک کو اس طرح کی پیشکش کرتا ہے اور یورپی یونین کی اپنے ممبران سے ٹیکس فری تجارت کا بھی یہی تصور ہے اگر امریکہ یہ یورپی یونین اور دیگر ممالک کے ساتھ کر سکتا ہے تو اسے پاکستان کے لئے بھی کرنا چاہئے۔ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری قابل تعریف ہے تاہم انہوں نے کہا کہ سی پیک کے حوالے سے بہت سے ابہام پائے جاتے ہیں۔ چین پاکستان کو رقم فراہم نہیں کر رہا ہے تاہم چینی نجی سیکٹر مالی معاو نت ،انرجی اور انفراسٹرکچر ڈو یلپمنٹ کے پراجیکٹس کیلئے سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی کاوشوں سے معیشت بہتری کی راہ پر گامزن ہے اور سی پیک سے آنے والے سالوں میں مزید مثبت اثر پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بنک نے بلوچستان میں سولر پاور پراجیکٹ میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ان کی جماعت نے 1999میں گوادر کو متبادل مشرق وسطیٰ کے طور پر بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن بدقسمتی سے فوجی بغاوت نے کئی سالوں کا نقصان کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملکی پیدوار میں میں جی ڈی پی 20سے 25 فیصد ہے اور ورلڈ بینک کے ساتھ نئے میکنزم سے اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان ورلڈ بنک کے حکام کے ساتھ اپنے جی ڈی پی کی شرح میں اضافے کو یقینی بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔انہوں نے روپے کی قیمت میں اضافہ ،پاکستان کے آئندہ الیکشن کے حوالے سے مقبول حکومتی اقدام اور مسائل کی شکار امریکی معیشت کے باعث پاکستانی شرح نمو متاثر ہونے کے حوالے سے آ ئی ایم ایف کی تشویش کے حوالے سے کہا کہ یہ اسبا ب ملکی معیشت پر اثر اندازنہیں ہونگے ۔ انہوں نے کہا کہ محض آئندہ الیکشن جیتنے کے لئے معقول پیمانے ظاہر کرنا حکومتی پالیسی نہیں ہے اور ہم ایسا کر کے کئی سالوں کی محنت کےمعاشی فوائد سے محروم نہیں ہونا چاہتے ہیں اور آئندہ بجٹ میں بھی محض مقبولیت حاصل کرنے کے لئے ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جائے گا۔ روپے کی قیمت میں استحکام اچھی اکنامک پالیسیوں کا نتیجہ ہے،اگر مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے کرنسی مستحکم رہ سکتی ہے تو پا کستا ن میں کرنسی کے استحکام وکیوں خطر ات لا حق رہتے ہیں ۔ انہوں نے اس امر کو تسلیم کیا کہ پاکستانی برآمدات میں حالیہ چند سالوں میں کمی واقع ہوگئی ہے اور اس کی وجہ تیل کی قیمتوں میں کمی اور کم ہوتی ہوئی پیداواری یونٹ ویلیو ہے۔