غزہ کی ایک لاچار ماں نے اپنی دو ماہ کی بیٹی کی بھوک و افلاس کی حالت بیان کرتے ہوئے دنیا سے مدد کی اپیل کی ہے۔
غزہ کے نصر اسپتال میں داخل، غذائی قلت کا شکار 2 ماہ کی بچی کی ماں نے برطانوی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دنیا سے اپیل کی ہے کہ ان کی بچی کو غزہ سے باہر علاج کے لیے لے جایا جائے تاکہ بچی کی جان بچائی جا سکے۔
یاسمین ابو سلطان نے اسرئیلی جارحیت کے سبب غزہ میں جاری جبری قحط سالی کی روداد سناتے ہوئے کہا ہے کہ جب میری بیٹی پیدا ہوئی تھی تو اس کا وزن 2.7 کلوگرام تھا، اب اس کا وزن صرف 2.6 کلوگرام رہ گیا ہے۔
یاسمین کا کہنا ہے کہ دورانِ حمل میں نے خود بھی غذائی قلت کا سامنا کیا جس کے سبب میری بیٹی بھی کمزوری کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس اپنی بچی کو مناسب خوراک دینے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، نہ میرے پاس دودھ ہے، نہ خوراک ہے اور نہ ہی دوا، میں اپنی ننھی بچی کو کیسے بچاؤں؟۔
اقوامِ متحدہ کے حمایت یافتہ عالمی ماہرینِ خوراک نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط کا بدترین منظرنامہ حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق غزہ کی آبادی کا بڑا حصہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے، خاص طور پر شیر خوار بچوں، حاملہ خواتین اور بیمار افراد کو خوراک اور طبی سہولتیں نہ ملنے کے سبب جان کا خطرہ لاحق ہے۔
دوسری جانب، اسرائیل نے غزہ میں قحط یا بھوک کی موجودگی کی تردید کرتے ہوئے خوراک کی کمی کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ انسانی امداد کو روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں، تاہم زمینی حقائق، اقوامِ متحدہ کی رپورٹس اور مقامی شہریوں کی شہادتیں کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہیں۔