ملک کے قومی کھیل ہاکی میں آج کل دوستیاں نبھائی جا رہی ہیں، بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں پاکستان ٹیم شرکت نہیں کر رہی، بین الاقوامی سطح پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کے تعلقات کا یہ حال ہے کہ ملائشیا آج ہمیں بلانے پر تیار نہیں۔
ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری شہباز سینئر جو بحیثیت کھلاڑی مخالف ٹیم کے دفاع کو تہس نہس کرنے میں مشہور تھے، آج ہاکی فیڈریشن کی پالیسیوں اور ناقص منصوبہ بندی کا دفاع کر نے کے لیے میڈیا میں آکر دو بول بولنے سے بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
ہاں البتہ اپنے دوست کامران اشرف کو جونیئر ہاکی ٹیم کے ساتھ 4ماہ کے دورے پر آسڑیلیا بھیجنے میں انہوں نے زرہ برابر ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔
قومی سینئر ہاکی ٹیم میں جونیئر کھلاڑیوں کو شامل کر کے کئی سینئر کھلاڑیوں کو ایک ایسے مرحلے پر ٹیم سے علیحدہ کیا جا رہا ہے جب جون میں قومی ہاکی ٹیم کو انگلینڈ میں ورلڈ کپ کوالی فائر کے مشکل اور کٹھن مرحلے سے گزرنا ہے۔
ایسے موقع پر کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ تجربے کار کھلاڑیوں کے ساتھ ورلڈ کپ کوالی فائر کھیلنے کی پالیسی اپنائی جاتی اور ورلڈ کپ میں نوجوان کھلاڑیوں کو کھلا نے کا تجربہ کیا جاتا۔
یاد رہے کہ پاکستان 2014ء کے ورلڈ کپ اور 2016ء کے اولمپکس ہاکی مقابلوں میں شرکت نہیں کر پایا تھا، ماضی میں پاکستان 4مرتبہ ہاکی ورلڈ کپ اور 3بار اولمپکس کا گولڈ میڈل جیت چکا ہے، لیکن اب ہاکی عہدیداروں کی کھیل سے عدم دلچسپی اور فیڈریشن کے عہدوں میں کشش نے اس کھیل کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔