دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ترقی و خوشحالی ہمیشہ سے ہی پرامن معاشروں کا مقدر بنی ہے، قدیم یونانی سلطنتیں ہوں یا دورجدید کے ممالک، اولین ترجیح پرامن معاشرے کا قیام ہے اور ایسا معاشرہ تب ہی وجود میں آسکتا ہے جب میانہ روی، رواداری، تحمل مزاجی، برداشت، درگزر اور سماجی انصاف جیسی اعلیٰ خصوصیات سماجی رویوں کا حصہ ہوں۔ یونانی تاریخ 585قبلِ مسیح میں متحارب سلطنتوں میڈیس اور لیڈیا کے باشندوں نے پندرہ سال کی طویل جنگ و جدل سے تنگ آکر ایک دوسرے کے خلاف لڑائی سے انکار کرکے امن کو ترجیح دے کرایک مثال قائم کی، قدیم فلسفیوں ارسطو، سقراط، چانکیہ، کنفیوشس، افلاطون وغیرہ سب کی تعلیمات امن اور خوشحالی کے پیغامات سے بھرپور ہیں۔ بائبل کے مطابق مبارک ہیں وہ لوگ جو رحم دل اور امن پسند ہیں۔ ہندو ازم کی تعلیمات میں اہنسا یعنی کسی جاندار کو تکلیف نہ دینا کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، برصغیر کی تاریخ میں لاتعداد انسان دوست سادھو جوگی گزرے ہیں جن کی زندگی کا مقصد محبت، بھلائی اور بھائی چارے کا پیغام عام کرنا تھا، مشہور ہندو شہنشاہ اشوک اعظم نے جنگ و جدل کا راستہ ترک کرکے امن کو اپنا مقصدِ زندگی بنا لیا، جدید تاریخ میں اہنسا عدم تشدد پر مبنی اصولوں پر زندگی گزارنے والی نمایاں شخصیات میں مہاتما گاندھی جی شامل ہیں، جین مت میں کیڑے مکوڑوں کو بھی نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا۔ پیغمبر اسلام کو تو تمام دنیا کیلئے رحمۃ للعالمین کہا گیا جنہوں نے مسلم، غیر مسلم، عورت، مرد، چرند، پرند، قیدی، غلام سب کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کی اعلیٰ تعلیمات دیں، میثاقِ مدینہ کی صورت میں ایسا منفرد امن پسندانہ تحریری معاہدہ غیر مسلم شہریوں سے کیا جس میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کئے گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے تمام مذاہب کا ایک ہی مقصد ہے کہ خداوند تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات کی روشنی میں انسان اپنے اندر اعلیٰ اوصاف کو پروان چڑھا کر ایک ایسا معاشرہ قائم کرے جس میں ہر کسی کو زندگی گزارنے کا اختیار ہو لیکن یہ سب تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب معاشرے میں ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہو۔ موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ انسان نے برداشت، رواداری اور وسیع قلبی جیسی اعلیٰ روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے آپ کو ایک ایسا کنویں کا مینڈک بنا ڈالا ہے جس میں سے نہ وہ نکلنے کو تیار ہے اور نہ کسی دوسرے کو برداشت کرنے کا روادار، ایسے ناپسندیدہ رویوں کا مظاہرہ ہم قومی، علاقائی اور عالمی ہر سطح پر ملاحظہ کرسکتے ہیں، چاہے وہ پاکستان میں مشال خان کا المناک قتل ہو یا پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی، مغرب میں بڑھتا ہوا اسلامو فوبیا ہو یا لسانی، مذہبی و قومیتوں کی بنیاد پر انسانوں کی تفریق، ان تمام انسانیت دشمن واقعات کے عوامل میں سرفہرست عدمِ برداشت اور اپنے آپ کو صحیح قرار دے کر دوسرے فریق سے زندگی کا حق چھین لینا ہے۔ میری نظر میں انسان کا انسان سے انسانیت کے ناتے تعلق مضبوط ترین بنانے کیلئے صرف زبانی کلامی بیانات، عالمی دن منا لینے سے کام نہیں چلنے والا بلکہ اس کیلئے ایسی موثر عملی جدوجہد کی ضرورت ہے جس میں والدین، اساتذہ، میڈیا اور سیاسی لیڈران کا کلیدی کردار اس بنا پر ہے کہ یہ لوگ معاشرے کیلئے رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں، بچہ اپنے والدین سے بنیادی باتیں سیکھتا ہے، استاد اس کو عملی زندگی کیلئے زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتا ہے، انسان جو کچھ اخبار میں پڑھتا ہے یا ٹی وی اسکرین پر دیکھتا ہے ویسا ہی اپنے خیالات کو پروان چڑھاتا ہے اور سیاسی لیڈران کا طرزِ زندگی کارکنوں کیلئے قابلِ تقلید مثال ہوتا ہے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم کی 11اگست 1947کی تقریر گواہ ہے کہ قیامِ پاکستان کا بنیادی مقصد ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام تھا جہاں کے باشندے بلا خوف و خطر اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کر سکیں، جمہوری نظام حکومت کے مطابق چاہئے حکومت اکثریتی مسلمان ہی کریں لیکن غیر مسلم باشندوں کا تحفظ حکومتی ترجیحات میں شامل ہو۔ آج پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کی خوفناک لہر کی شروعات کوئی لمحاتی یا حادثاتی طور پر نہیں بلکہ قیامِ پاکستان سے ہی ہو گئی تھی جب مذہبی تفریق کی بنا پر دونوں طرف لاکھوں معصوم جانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ماضی میں اکثریتی حصے کی زبان بنگالی کو برداشت کرنے سے انکار، مشرقی پاکستان میں آپریشن، جنرل ضیاء کا مارشل لا، امریکی سر پرستی میں افغان جہاد سمیت ریاستی سطح پر ایسے لاتعداد اقدامات اٹھائے جاتے رہے ہیں جن کا خمیازہ آج پاکستان بھگت رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت کے حالات کے مطابق ان کی ضرورت ریاست کو ہو لیکن زندہ قومیں حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے ہوئے ناکام پالیسیوں پر نظرثانی اور مستقبل کیلئے موثر لائحہ عمل کے تعین پر توجہ مرکوز رکھتی ہیں، ماضی کا قدامت پسند چین آج تمام دنیا کیلئے اوپن ہے، کالے امریکیوں کو ریسٹورنٹ میں برداشت نہ کرنے والا امریکہ سیاہ فام صدر منتخب کر رہا ہے، مذہبی آزادی کے دشمن سوویت یونین کا شیرازہ بکھر چکا ہے، ماضی کا تعصب پسند جنوبی افریقہ سیاہ اور سفید باشندوں کے مابین تعاون کی بہترین مثال بن چکا ہے، یورپی یونین کا قیام جرمنی فرانس سمیت ان مغربی ممالک نے عمل میں لایا جو صدیوں سے ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے تو پھر وہ کیا وجوہات ہیں جو پاکستانیوں کو ترقی و خوشحالی سے روک کر عدم برداشت اور تشدد پر اکسا رہی ہیں؟ میری نظر میں پاکستانی معاشرہ مختلف قومیتوں، زبانیں بولنے والوں اور مذاہب کو ماننے والوں پر مشتمل ہے لیکن ہمارے معاشرے میں میانہ روی، رواداری، تحمل مزاجی، برداشت، درگزر اور سماجی انصاف جیسی اعلیٰ خوبیوں کا فقدان ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کیلئے ماں کا درجہ رکھتی ہے اور جیسے ماں اپنے تمام بچوں کا ایک سا خیال رکھتی ہے ویسا ہی رویہ ایک جمہوری اور سماجی ریاست کو روا رکھنا چاہئے، لیکن افسوس ہے کہ سندھ اسمبلی کا جبری مذہب تبدیلی کی روک تھام کیلئے متفقہ طور پر منظور کردہ بل قانون بننے سے تو محروم ہو جاتا ہے لیکن معاشرے کیلئے زہر قاتل شراب کی غیر مسلموں کے نام پر خرید و فروخت کو نہیں روکا جا سکتا۔ مذہب کے نام پر قتل و غارت کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ تمام مذاہب کی تعلیمات ایک دوسرے کا احترام یقینی بناتے ہوئے امن کو فروغ دینے کی تلقین کرتی ہیں، تازہ مثال مردان میں طالب علم مشال خان کی ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں بہیمانہ قتل کی دی جا سکتی ہے جہاں قاتلوں نے اقبالی بیانات میں تسلیم کیا ہے کہ ان کے مقتول سے ذاتی و نظریاتی اختلافات تھے لیکن معاملہ کسی صورت توہین مذہب کا نہ تھا، یہ المناک واقعہ پاکستانی معاشرے پر سنجیدہ سوالیہ نشان ہے، ماضی میں بھی ایسے بے شمار افسوسناک واقعات وقوع پذیر ہو چکے ہیں، ذاتی جھگڑوں میں توہین مذہب کے جھوٹے الزامات اور ’بلاس فیمی‘ قانون کے غلط استعمال پر کڑی سزائیں ہونی چاہئے، سماجی ناسور شراب پر مکمل پابندی عوامی حلقوں کی آواز بن چکی ہے، سپریم کورٹ نے میرا نقطۂ نظر سن کرکے اقلیتوں کے تحفظ کیلئے 19جون 2014کو جو تاریخی فیصلہ دیا تھا اس پر ریاست من و عن عملدرآمد یقینی بنانے سے قاصر نظر آتی ہے، آج بھی خیبر پختونخوا اپنے نصابِ تعلیم سے نفرت انگیز مواد خارج نہیں کر سکا، دیگر صوبوں میں بھی سینکڑوں باشندے فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں یا اپنی مذہبی شناخت پوشیدہ رکھ کر خوف کے سائے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اب جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری اور جنرل راحیل شریف کی بطور سپہ سالار اسلامی افواج سمیت متعدد واقعات سے پاکستان کے عالمی منظر نامے میں قائدانہ کردار کی عکاسی ہوتی ہے تو ریاست کو بھی ماضی کی فرسودہ پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے، میں میڈیا، پارلیمانی نمائندوں اور سول سوسائٹی سے بھی استدعا کرنا چاہوں گا کہ ملک اب مزید انتہا پسندانہ رویوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، ہم سب کو معاشرے کو یقینی طور پر پرامن بنانے کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہو گا، پرتشدد واقعات کے رونما ہونے کے بعد مذمتی بیانات کا انتظار نہیں بلکہ ایسے ناپسندیدہ واقعات کی روک تھام یقینی بنانے کیلئے معاشرے سے عدم برداشت، تشدد اور تفریق کو ختم کرنا ہوگا، اس سلسلے میں ہم سب کو اپنے اپنے پیشے سے مخلص رہتے ہوئے ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کے احترام کا کلچر عام کرنا ہو گا۔ برداشت، صبر و تحمل پر مبنی پاکستان کی جانب پہلا قدم بڑھا کرہی ہم عالمی امن اور ترقی و خوشحالی کے حصول کی منزل سے ہمکنار ہو سکیں گے۔
.