• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرکاری اسپتالوں میں انسانی اعضا کا غیر قانونی دھندہ

انسانی اعضا کی خرید وفروخت کا گھنائونا کاروبار اس قدر سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے کہ اگر نوٹس نہ لیا گیا تو خدشہ ہے کہ غریب اور بے سہارا مریض علاج معالجے کے تصور سے ہی کانپنے لگیں گے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسلام آباد کے ایک بڑے سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر گردوں کی خرید و فروخت اور غیر قانونی آپریشنز میں ملوث ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق پاکستان میں اس وقت انسانی اعضا کی غیر قانونی خرید و فروخت کا کاروبار دو ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے جبکہ پرائیویٹ اسپتال بنانا منافع بخش بن چکا ہے۔ لاہور کےایک علاقہ میں رکشہ ڈرائیور اور ایک عورت کا گردہ نکالنے کی اطلاع پر ایف آئی اے کی ٹیم نے چھاپہ مار کر گردے فروخت کرنے والےڈاکٹروں کوگرفتار کیا۔ جب انہیں مقامی عدالت میں پیش کیاگیا تو ان کی پشت پناہی کرنے والے افراد وکلا سے الجھ پڑے۔ اسلام آباد اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں یہ گھنائونا کاروبار ہو رہا ہے تو چھوٹے شہروں میں غریب اور ضرورت مند لوگوں کا کتنا استحصال ہو رہا ہو گا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ اسلام آباد کے سرکاری اسپتال میں گردے کے ایک مریض سے پہلے 8لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا بعد میں مزید 13لاکھ روپے مانگے گئے۔ موسم کی شدت اور سفری صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے غریب و بے سہارا مریض ڈاکٹروں کے کارندوں سے ہوشربا فیسوں کا سن کر مایوس لوٹ جاتے ہیں شام کے بعد سرکاری اسپتالوں میں ہو کا عالم ہوتا ہے اور ڈاکٹرز پرائیویٹ اسپتالوں میں مصروف ہوتے ہیں، جس سے رات کے وقت اسپتالوں کا نقشہ ہی بدلا ہوتا ہے۔ بداخلاقی، ہتک آمیز رویہ، عدم توجہی عملے کا وتیرہ بن گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تیزی سے پھیلتے ہوئے اس کاروبار کی حوصلہ شکنی کی جائے اور قانون میں ترمیم کرکے انسانی اعضا کی پیوند کاری کو ایک باقاعدہ نظام کے تحت لایا جائے اوران کی اسمگلنگ روکی جائے ۔ایسے کاروبار میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دینا وقت کی ضرورت ہے۔

.
تازہ ترین