• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند سال سے قبل اقبال مرحوم کے دو اشعار پر بہت بحث ہورہی تھی اور دونوں اشعار قیام پاکستان سے پہلے کہے گئے تھے۔ کیونکہ علامہ اقبال مرحوم نے پاکستان کا خواب تو دیکھا تھا مگر اس کی تعبیر نہیں دیکھی تھی۔ پاکستان کا نام دور دور تک نہیں تھا اور غالباً اسی کی مناسبت سےانہوں نے کہا ہوگا کہ ـ"سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا"اس شعر میں نہ اس وقت کوئی غلط بات تھی اور نہ آج کوئی غلط بات ہے ۔فرق صرف اتنا تھا کہ اس وقت تمام ہندوئوں اور تمام مسلمانوں کا متفقہ پسندیدہ شعر تھا بلکہ ترانہ بھی تھا ۔مگر آج تمام ہندوستانیوں کا جس میں ہندو اور دوسری قومیں شامل ہیں ۔ان کا مشترکہ ترانہ ہوسکتا ہے مگر ہندوستان کے مسلمانوں کا نہیںکیونکہ اب ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جارہے ہیں ۔مگر پاکستانیوں کا یہ صرف پسندیدہ شعر ہے اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوناچاہئے۔ویسے بھی ہر شخص کو اشعار ،غزل ،گانے کے معاملے میں اسی طرح کی آزادی ہونی چاہئے ۔جس طرح ہر شخص کھانے پینے اور رہنے میں اپنی پسند کے لئے آزادی رکھتا ہے کسی کو کوئی کھانا پسند ہوتا ہے کسی کو لال رنگ کسی کو سفید اور کسی کو سبز رنگ پسندہے ،اسی طرح لباس کا بھی یہی حال ہے۔ہم کو سب کی پسند کا احترام کرنا چاہئے اور غلط انداز فکر کا شکوہ نہیں کرنا چاہئے ،کہ اگر کسی کو لال رنگ پسند ہے تو اس کو اشتراکی یا سوشلسٹ قرار دیا جائے اوراگر کسی کو سبز رنگ پسند ہے تو وہ قدامت پسند سمجھا جائے ،کیا شہنازبیگم نے "جیوے جیوے پاکستان" نہیں گایا تھا۔اس وقت ویسے بھی ہمارا ملک دولخت ہوچکا ہے اور تاریخ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس میں ہماری غلطی ہی نہیں بلکہ ہٹ دھرمی بھی شامل تھی۔اگر ہم مصلحت اور ہوش مندی سے کام لیتے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مشرقی پاکستان کے بھائیوں کی بات سنتے تو اس کا بہترین حل نکل سکتا تھا۔ ان کے جائز مطالبات مان کر ہم آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہتے اور پاکستان جغرافیائی دوری کے باوجود آج بھی ایک ہوتا ،خود مجیب الرحمن بھی آدھے پاکستان پر حکومت کرنے کے بجائے پورے پاکستان پر حکومت کرنے پر کیوں نہ آمادہ ہوتا ۔خود ہم نے اقلیت میں ہونے کے باوجود 1971ء تک یعنی 24سال حکومت کی اور جب خاص طور پر انہوں نے اکثریتی صوبے کی وجہ سے الیکشن بھی جیت لیا تھا تو ان کو حکومت بنانے کی دعوت دینا ان کا اخلاقی و قانونی حق بن چکا تھا ۔انہوں نے ہمیں کبھی غدار نہیں کہا کہ آپ اقلیت میں ہونے کے باوجود ہم پر حکومت کررہے ہیں ۔مگر ہم نے جب بھی اپنے مفادات کو ہاتھ سے جاتے دیکھا تو فوراًغدار کا لیبل لگادیا اور پھر اس کی سرعام تشہیر بھی شروع کردی ۔پھر یہی کھیل سرحد میں خان عبدالولی خان کی پارٹی کے ساتھ بھی کھیلاگیا ۔شروع سے ہی انہیں غدار کہا جاتا رہا پھر یہ کھیل سرحد سے نکل کر بلوچستان میں کھیلا گیا ۔ان کو بھی پہاڑوں پر چڑھناپڑا۔ان کی باتیں سننے کے بجائے ان کو غدار کہا گیا ان کو کسی نے بھی مذاکرات کی دعوت نہیں دی ۔یہ کھیل اب سندھ میں بھی شروع کردیا گیا ہے ۔خود ہندوستان کو کشمیر کے معاملے میں مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں اور وہ مذاکرات سے بھاگ رہا ہے اور انکار کررہا ہے تو ہم اس کو عالمی سطح پر برُابھلا کہتے ہیں۔ عالمی اداروں کو جھنجوڑرہے ہیں ،یو این او میں فریادیں کررہے ہیں مگر دوسری طرف خو د ہم اپنے ہم وطنوں کی شکا یتیں بھی سننے کے لئے تیا رنہیں ۔آج تک کسی بھی پیمانے پر ان کو مذاکرات کی دعوت تک نہیں دیتے ۔ان کی جائز شکا یتیں کون دور کرے گا۔ان کا احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے۔ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے غداری کے نشتر چلائے جارہے ہیں۔پہلے یہ سب الگ الگ اپنی آوازیں بلند کرتے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ کوئی بھی ہمارا مسئلہ حل کرنا تو کجاسننے کے لئے بھی تیار نہیں ہے تو انہوں نے مشترکہ جدوجہد کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور یقیناہماراازلی دشمن ان کو ہوا دے رہا ہے۔کل کی ایک خبر ہے کہ ہندوستان نے ہماری 50بچیاں جن کو بھارت کی ایک این جی او نے تفریخی دورے پر بلایا تھا کو 12دن کے بجائے دوسرے دن ہی واپس بھجوادیا ۔جبکہ ہم بھارتی تا جرجندال کو پورے پروٹوکول کے ساتھ خوش آمدید کرتے ہیں ۔اگر حقیقت کا چشمہ لگاکر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں بھارتی کلچر بھارتی چینل سے شروع ہوا اور آج تمام چینل چپکے چپکے اکثریتی گھروں میں داخل ہوچکے ہیں ۔جہاں جہاں کیبل پہنچ گیاہے وہاں ان کا کلچر فلمی ناچ گانے فلموں کے ذریعے ہمارے نسلوں میں رچ بس رہا ہے ۔انہوں نے کمال ہوشیاری سے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کے لئے مختلف چینلوں سے پروگرام دکھادکھاکر بالواسطہ آدھا بھارتی بنا دیا ہے ،اگر چہ وہ ہندی کو اُردونہیں کہتے مگر اس ہندی میں 90فیصد اُردو کی آمیزش کرکے ہندی پروگرام کا نام دیتے اور ہم صبح سے لے کر رات تک نام نہاد ہندی پروگرام ،فلمیں ،کارٹون دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے ہیں۔ہمارے بازار ان کے اشتہاروں کی وجہ سے ان کی اشیاء سے بھر ے پڑے ہیں۔ کونسی اشیاء ہیں ان کی جو ہماری مارکیٹوں میں نہیں ملتیں، اگر کوئی شاذونادر نہ ملے تو ہم کسی بھی آنے جانے والے سے فرمائش کرکے منگوالیتے ہیں ۔ہمارے ہاں سے پاکستان کا بنا ہوا کوئی بھی مال ہندوستان نہیں جاتا البتہ سپاری ،گندم ،چینی ضرور اسمگل ہورہی ہے ۔جو خو د ہم امپورٹ کرتے ہیں۔ گویا ہم اپنا غیر ملکی زرمبادلہ خرچ کرکے ہندوستانی کرنسی میں فروخت کررہے ہیں جبکہ پاکستان کی کوئی چیز بھی ہندوستان میں نہیں بیچنے دی جارہی بلکہ پچھلے دنوں جو مصنوعات کپڑے وغیرہ تھے اُن کو بھی دکانوں سے نکال کر آگ لگا دی گئی ۔ہماری معیشت تو بیٹھ چکی ہے کیونکہ پی پی پی کی حکومت نے اپنے 5سالہ دور میں 22بلین ڈالرزقرضےلئے تھے جبکہ موجودہ حکومت جو معیشت بہتر کرنے کے دعوے کررہی ہے نے 4سال میں 80بلین ڈالر ز کے قرضے وہ بھی آئی ایم ایف کی اپنی شرائط پر لئے ہیں ۔اب توتہذیب و تمدن بھی دائو پر لگ چکا ہے۔خدارا حقیقت سے کام لیں۔ سیاستدانوں کو کونے میںکردینے سے حکومت چلانا اب ناممکن ہوتا جارہا ہے ۔مہنگائی اور ٹیکس ٹیکس کی صدائیں مایوسی پھیلارہی ہیں۔عوام کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے ،تمام سیاستدان ایم این اے،ایم پی اے ، سینیٹرزچور نہیں ہیں عوام کو اعتماد میں لیجئے اورمعیشت کو سدھارنے کے لئے اقدامات کیجئے ،پہلے قرضوں کو لینا بند کیجئے ورنہ معیشت کبھی نہیں سدھر سکے گی ۔ماضی کی غلطی کو دہرانے کے بجائے ان بگڑے ہوئے اور بپھرے ہوئے سیاستدانوںکو مذاکرات کی میز پر بلائیے ،قبل اس کے عوام ان کی لبیک کو ہی اپنی نجات سمجھ کر ان کے پیچھے بلا سوچے سمجھے چل پڑیں۔جمہوری انداز سے ان گمبھیرمسائل کو مذاکرات کی میز پر فوری طور پر حل کریں۔



.
تازہ ترین