پاکستان کے سابقہ عالی مرتبت پرویز مشرف کی نیوز ویلیو آج بھی برقرار ہے۔ ان کا نو سالہ عہد حکمرانی کن حروف سے لکھا جائے گا، اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی۔ البتہ ان کے دو کام ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ایک یہ کہ ان کے طفیل اردو زبان کو وسعت ملی، سرجیکل اسٹرائیک، ڈرون حملے، ڈی بریفنگ الغرض اس طرح کے کئی الفاظ ہیں، جو ہماری سماعتوں سے ٹکراتے رہتے ہیں !دوسرا بڑا کام سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا ہوا ہے، اس کے لئے پرویز مشرف کو اگر عسکریت پسند، اسلام دوست اور مجاہدین بھی بیچنا پڑے تو انہوں نے دریغ نہیں کیا۔ مقصد ملک کا انفرا اسٹرکچر درست کرنا تھا۔ اس عرصے میں کئی پل ٹوٹے اور گرے، بہت سارے پلوں کے نیچے سے پانی تک گزر گیا، مگر انسانوں کی خرید و فروخت بند نہ ہوئی۔ وہ کاروبار آج بھی جاری ہے، مگر اب مرکز محض، ایک سو چار کمروں کے ایوان میں بیٹھ کر O.P کی ڈیوٹی کر رہا ہے کیونکہ صوبے عالمی منڈیوں سے ڈائریکٹ لین دین میں پڑ گئے ہیں۔ گوجر خان کے نوجوان شاعر ادریس احمد مرزا نے کہا تھا
کھایا گیا ہے بانٹ کے کس اہتمام سے
جیسے مرا وطن کوئی چوری کا مال تھا
سابقہ عالی مرتبت کا پاکستان سے محنت کا یہ عالم تھا کہ امریکہ، افغانستان یا عراق پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہوتا تھا، تو پرویز مشرف پکار اٹھتے تھے کہ ” سب سے پہلے پاکستان “ ان کے پہلے ہاف کے وزیر اطلاعات و فروغ ابلاغ عامہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ” ہم نے امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ وہ پاکستان میں کسی علاقے پر بمباری نہیں کرے گا، وہ صرف نشاندہی کرے باقی کام ہمارا ہے۔ دراصل نشاندہی کے بعد کے کام کا الگ معاوضہ ملا کرتا تھا۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں صوفی ازم کو بھی فروغ دیا ہے، ان کے عہد کے صوفیائے کرام میں چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین، سلمان تاثیر اور لاہور کے چند ایک پتنگ باز بھی شامل تھے، آج کل پرویز مشرف پر جذب و کیف کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ برگزیدگی ان پر غالب آتی جا رہی ہے، روح کی بالیدگی اور ان کی روحانیت کا یہ عالم ہے کہ اب انہوں نے پیشین گوئیاں کرنا شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ دنوں بریگیڈیئر نیاز کے گھر ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” پاکستان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، عوام کی فکر بھی انہیں دامن گیر تھی، وہ آئی ایس آئی کے لئے بھی تشویش کا اظہار کر رہے تھے، انہیں پہلی بار فوج کے لئے فکر مند دیکھا، پتہ نہیں عالم غیب میں انہیں آنے والے وقتوں میں کیا کچھ دکھائی دے رہا تھا جس کے لئے وہ مسلسل، فکر و تردد میں مبتلا ہو رہے تھے۔ گزشتہ دنوں پشاور کے ایک فوجی MESS میں شادی کی ایک تقریب میں کرنل تسلیم مروت خٹک ڈانس کر رہے تھے، غیر پختونوں کے لئے بتاتا چلوں کہ خٹک ڈانس دائرے کی شکل میں کیا جاتا ہے، دو تین قدم آگے چل کے ایک آدھ قدم پیچھے ہٹ کے سر کو زور سے جھٹک کر اور جسم کو گھما کر ایک دم بیٹھ کر فوراً اٹھنا ہوتا ہے، جن لوگوں کے لئے بیٹھ کر اٹھنا مشکل ہو، وہ بھی خٹک ڈانس میں چست ہو جاتے ہیں۔ ڈھولک کی تھاپ پر کرنل مروت نے مجھے بھی ڈانس کی دعوت دی، مگر میں نے یہ کہہ کہ معذوری ظاہر کردی کہ کچھ لوگ ڈانس دیکھنے والے بھی ہونے چاہئیں۔ یہ بات سن کر کرنل ایک کی بجائے دو تین قدم پیچھے آئے، سر جھٹکا بیٹھ کر اٹھے اور مجھے کہنے لگے، یہ فقیری دائرہ ہے، دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونا درویشی ہے ! آ جاؤ یہ ڈانس نہیں لنگر ہے، شامل ہو کر بھنڈار لے لو۔ میں نے کہا اس وقت آپ پر روحانیت چڑھی ہوئی ہے۔ آپ کا باس بھی آج کل اسی قسم کی باتیں کر رہا ہے۔ آپ تو اس کے بارے میں بھی کہا کرتے تھے کہ فقیر ہے، درویش ہے، متوکل ہے، میری یہ بات سن کر کرنل تسلیم مروت ڈانس دائرے سے باہر آ گئے۔ اسی اثناء میں کھانا کھل گیا! سب ڈانس چھوڑ کر ادھر لپکے، کرنل مجھے ایک طرف لے جا کر اپنے باس کے دفاع میں بولنے لگ گئے، کرنل تسلیم مروت کا فوج کے محکمہ ایجوکیشن سے تعلق ہے، وہ بطور کرنل جی ون مذہبی امور جنہیں باوردی مولوی کہا جا سکتا ہے، منگلا میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے اچنبھے میں ڈالنے کے لئے کہا کہ پتہ ہے پرویز مشرف سگریٹ پیتے ہیں، مگر خریدتے نہیں، سگار انہیں راولپنڈی کی لال حویلی سے آتے ہیں اور سگریٹ وہ دوستوں کی جیب سے نکال لیتے ہیں۔ ہم نے کہا پوٹھوہاری میں اس عمل کو پیداگیری کہتے ہیں ! وہ کہنے لگے یہ سادگی ہے کہ جو بھی برانڈ مل گیا پی لیا، کوئی نخرہ نہیں۔ پھر وہ کہنے لگے توکل کا یہ عالم کہ جب 6 اکتوبر 1998ء کو وہ آرمی چیف بنے تھے تو اس سے صرف چند دن پہلے منگلا کور کمانڈر کی حیثیت سے کراچی ایک میٹنگ کے سلسلے میں گئے۔ وہاں انہیں اپنڈکس کی تکلیف ہوئی تو وہ خود ہی CMH پہنچ کر اسپتال میں داخل ہو گئے۔ میں نے کہا اس وقت وہ تھری اسٹار جنرل تھے، جہاں جاتے ان کا پروٹوکول تو تھا ہی، کرنل تسلیم نے کہا بات دلیری اور ہمت کی ہے اندازہ لگائیں صبح ان کا آپریشن ہوا اور شام کو انہوں نے لوگوں سے ملنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا یہ تو میڈیسن کا کمال ہے، اپنی مثال دی کہ آٹھ بجے صبح آپریشن ہوا اور ظہر کی نماز ہم نے باجماعت پڑھی تھی، جب مسلم لیگ (ن) کے صدیق الفاروق ملنے آئے تھے تو ہم مسجد میں تھے۔ اللہ کا کرم اپنی جگہ، مگر میڈیکل کی کامیابی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کرنل تسلیم نے کہا پرویز مشرف کا دسترخوان وسیع ہے، جو درویشی کی علامت ہے۔ ہم نے کہ اقتدار کے ایوانوں میں تو سب کا دسترخوان وسیع ہوتا ہے۔ غلام اسحاق خان نے اگست 1990ء میں بے نظیر کی حکومت اس لئے ختم کر دی تھی کہ موجودہ عالی مرتبت گھوڑوں کو مربے کھلایا کرتے تھے۔ کرنل مروت تنگ کر بولے آپ پرویز مشرف سے کیا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا وہ قوم سے معافی مانگیں، ان کی وجہ سے سوات کھنڈرات بن گیا، وزیرستان ویران پڑا ہے، حیات آباد میں بھی زندگی سہمی سہمی ہے، خود سوزیاں، خود کشیاں، ڈرون حملے، روزانہ درجنوں معصوم جانوں کے نذرانے اور افواج پاکستان کے جوانوں کی شہادتیں، ایٹمی پروگرام کے معماروں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا، امریکہ ہمیں سکھ کا سانس نہیں لینے دے رہا۔ بھارت دھمکانے میں لگا ہوا ہے، اس سارے کا ذمہ دار آپ کا باس ہے، اسے احتساب کے کٹہرے میں آنا چاہئے، اس کا محاسبہ ہونا چاہئے۔ کرنل تسلیم مروت نے کھیر کا آخری چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے قریب ہو کر ہولے سے کہا احتساب کون کرے گا، یہ جو پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل ہیں، ان کے ادھورے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں، یہ میرے باس کا احتساب کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ تو خود پرویز مشرف کی باقیات ہیں !!