برطانیہ میں بہت سی تاریخ ساز کانفرنسیں ہوتی رہی ہیں۔ ایک زمانے میں سلطنت برطانیہ (برٹش ایمپائر) کا دنیا میں ایک مقام تھا جس کی وجہ سے یہاں سے اٹھنے والی آواز کو اہمیت دی جاتی تھی۔ لندن کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ اسے برطانوی پارلیمنٹ کا صدر مقام اور برطانیہ کا دارالحکومت ہونے کی وجہ سے عالمی سیاست میں اب بھی نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ سلطنت برطانیہ سمٹ کر اور سکڑ کر اب صرف انگلینڈ، ویلز، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ پر مشتمل ایک مختصر ملک میں سما گئی ہے جسے سلطنت متحدہ (یونائیٹڈ کنگڈم) کہا جاتا ہے اور اب جسے سکاٹ لینڈ کی طرف سے بار بار علیحدگی کی آوازیں اٹھنے کی وجہ سے اور بھی مختصر ہو جانے کا خدشہ لاحق ہے۔ ایک زمانے میں امریکہ سے لے کر افریقہ تک اور ہندوستان سے لے کر ہانگ کانگ تک سلطنت برطانیہ کا پرچم لہراتا تھا۔ اور کہا جاتا تھا کہ اس سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا۔ تاریخ کا دھارا کبھی ایک سمت میں نہیں بہتا۔ اس میں مد و جزر یعنی اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا کہ ’’ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان تبدیل کرتے رہتے ہیں۔‘‘ کبھی سلطنت برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اب مسلسل بادلوں سے اکتائے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ یہاں کبھی کبھی ہی سورج طلوع ہوتا ہے۔ اب تو خیر گلوبل وارمنگ کے اثرات کی وجہ سے موسم تبدیل ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ورنہ یہاں بارش، دھند اور برف کا راج رہتا تھا۔ ایک وقت تھا کہ سلطنت برطانیہ کا مسلمان ممالک پر سکہ چلتا تھا اور اب یہ وقت ہے کہ برطانیہ کے ہر شہر سے اللہ اکبر اور یارسول اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے برطانیہ میں ہمارے علماء اور مشائخ کرام نے بڑی محنت کی اور یہاں تبلیغ اسلام کے شجر طیبہ کی آب یاری کے لئے جو خدمات سرانجام دی ہیں انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بہرحال برطانوی حکومت کو بھی داد دی جانی چاہئے کہ اس نے فراخ دلی سے یہاں مساجد اور مدارس کو قائم ہونے دیا اور اب یہاں ہزاروں مساجد اور سیکڑوں مدارس اسلامی معاشرے کی شناخت بن کر صبح قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں اور برطانوی معاشرے کو ابتدائی دور کے مسلمانوں کی کاوشوں اور خدمات کی یاد دلاتی رہیں گی۔ صاف ظاہر ہے کہ سیون سیون اور نائن الیون کے حادثے کے بعد حالات اس طرح نہیں رہے، مساجد اور مدارس کے قیام سے پہلے ہر طرح سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے کہ کہیں یہ کسی انتہا پسند تنظیم کا مرکز نہ ہو لیکن پھر بھی مسلسل تعلیمی ادارے قائم ہو رہے ہیں اور مساجد بن رہی ہیں جبکہ ایسا مسلمان تارکین وطن کسی دوسرے مسلمان ملک میں نہیں کر سکتے۔ مثلاً کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستانی مسلمان تارکین وطن تہران یا ایران کے کسی دوسرے شہر میں مسجد قائم کر سکیں؟ یا مملکت سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی کو مسجد اورمدرسہ قائم کرنے کی اجازت حاصل ہو؟؟ شاید ایسا ممکن نہ ہو ایسی کسی خواہش اور کاوش کے نتیجے میں یہی کیا جائے گا کہ پہلے سے مساجد اور مدارس موجود ہیں ان کی موجودگی میں آپ کو کسی اور مسجد اور مدرسہ بنانے کی ضرورت کیا ہے؟ لیکن برطانوی حکومت نے ایسا نہیں کیا آپ مساجد بناتے چلے جاتے ہیں اور مقامی کونسلیں ضابطے کی کارروائی کرنے کے بعد آپ کو اجازت دے دیتی ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خلیج اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سرکاری سرپرستی میں مخصوص فرقوں کے علاوہ مسلمان کی اکثریت کو ادارے قائم نہیں کرنے دیں گے کیونکہ وہ سرکاری سرپرستی میں اپنے عقیدے اور نظریئے کے علاوہ کسی اور کو برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے مسلمان برطانیہ میں اتے ہیں تو یہاں انہیں اپنے نظریئے اور عقیدے کے مطابق مساجد قائم کرنے کی اجازت حاصل ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ یہاں ہر طرح کی کتابیں اور لٹریچر لاسکتے ہیں۔ فروخت کر سکتے ہیں اور تقسیم کر سکتے ہیں خواہ اس میں برطانیہ کی پالیسیوں اور سیاسی حکمت عملیوں پر تنقید کی گئی ہو۔ یہ پالیسی دراصل کسی حکومت اور اس قوم کے اعتماد کی نشانی ہوتی ہے کہ اسے تعمیری اور مثبت تنقید سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی اور نہ ہی نظام حکومت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے جبکہ بیشتر اسلامی ممالک کی فرد واحد کی آمریت یا خاندانی شہنشاہیت پر مبنی حکومتیں کسی طرح کی تنقید کو سننے اور پڑھنے کا حوصلہ نہیں رکھتیں، خواہ مثبت اور تعمیری ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ کہ اجتماعی طور پر مسلمان معاشرے جمود اور طوفان سے پہلے کے سکوت کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جذبات کے آتش فشاں اندر ہی اندر پک رہے ہیں کبھی یہ لاوا بن کر پھٹ پڑے اور خاموش لہریں کبھی طوفان بن کر بپھر پڑیں تو سب کچھ بہا کر لے جائیں گی جس کا اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھائیں گی لیکن ذاتی آسائشوں اور عیاشیوں میں مست اور مدہوش حکمران نوشتۂ دیوار پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ بنو امیہ نے ظلم و ستم کی انتہا کردی۔ خاندان رسالتمآب پر ہونے والے سفاکانہ اور ظالمانہ رویے کے خلاف یزید کے بیٹے معاویہ بن یزید نے احتجاج کیا اور اقتدار کو ٹھوکر ماردی یا حضر عمر ابن عبدالعزیز نے عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کیا ورنہ باقی سارے حکمران ہاشمیوں علویوں کو ختم کرنے کے درپے رہے۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ ظالم اموی خاندان کے افراد کے وزراء ان کے حواری ان کے حمایتی سب کے سب قتل کر دیئے گئے یہ تعداد تاریخ ہمیں نوے ہزار افراد بتاتی ہے جنہیں چن چن کر ختم کرایا گیا پھر عباسیوں نے آل رسالتمآبﷺ پر ہونے والے ظلم و ستم کا انتقام لینے کے نام پر اقتدار حاصل کیا لیکن اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد آل نبی اولاد علی کو ہی سب سے بڑا دشمن سمجھا اور ان کو قید کرنے، زہر دینے اور ملک بدر کرنے کے ناپاک اقدامات کرتے رہے تھے ان عباسیوں کی عیاشیوں اور بے عملیوں نے ایسا دن دکھایا کہ ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور عباسیوں کا پانچ سو سالہ اقتدار ایک دیمک زدہ خشک تنے کی طرح زمیں بوس ہوگیا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ عثمان خان نے عثمانی خلافت اور سلطنت کی بنیاد رکھی لیکن انیسویں صدی میں اس سلطنت کو یورپ کی بیمار سلطنت کہا جاتا تھا اور پھر یہ بھی اپنے بے عملیوں اور بے تدبیروں اور ناکامیوں سمیت آبنائے فاسفورس میں غرق ہوگئی۔ سلطنت دہلی کے حکمران بھی بالآخر اپنی خاندانی رقابتوں اور سازشوں کی وجہ سے ناکام ہوئے اور ان کی جگہ لینے والی سلطنت مغلیہ بھی بیمار اور لاغر بوڑھے بہادر شاہ ظفر کی طرح نظام سلطنت کی بیماری، اس کی لاغری اور اس کی کنہہ سالی کی وجہ سے اپنی موت آپ مر گئی۔ بڑی بڑی عالیشان عمارتیں تعمیر کرنے اور محلات بنانے اور اس میں حرم سرا سجانے سے قومیں ترقی نہیں کر پاتیں۔ اقبال نے کہا تھا،
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
میں نے اپنی زندگی کی جوانی سے لے کر پختگی کی عمر تک مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت میں کافی وقت گزارا ہے ان کی خلوتوں ان کی جلوتوں کا امین ہوں ان کی محفلوں ان کی بزم آرائیوں ان کی سیاست ان کی روحانیت کا عینی شاہد ہوں۔ مولانا نورانی کو میں نے گفتار اور کردار میں یکساں پایا اور اپنے دور کے دیگر علماء اور مشائخ میں کافی حوالوں سے ممتاز اور منفرد محسوس کیا۔ مولانا نورانی نے مجھے برطانیہ میں موجود دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ ان کی قیادت میں ان کی مستقبل بین افکار کی ترجمانی کی مظہر ایک تاریخ ساز کانفرنس لندن میں ہوئی جسے ’’حجاز کانفرنس‘‘ کا نام دیا گیا۔
.