مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے رکھا ہے۔ صوبائی حکومت اور صوبائی پولیس بھی پوری طرح متوجہ ہیں، مبینہ قاتلوں کی ایک بڑی تعداد بھی گرفتار ہو چکی ہے ، سول سوسائٹی مشال خان کے قاتلوں کو سزادلانے کیلئے ملک کے اندر اور بیرون ملک کافی سرگرم ہے، صوبائی وزیراعلیٰ اورگورنر سمیت عمران خان صاحب بھی مشال خان کے قاتلوں کو عبرتناک انجام تک پہنچانے کیلئے پرعزم ہیں۔ یونیورسٹی طالب علم مشال خان کے قتل کا ذمہ دار کون ہے اور مزید یہ کہ کیا مشال خان واقعی توہین ِ مذہب کا مرتکب ہوا تھا جبکہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ توہین مذہب کے مجرم کو عدالت سے باہر کوئی ایک فرد یا ہجوم قتل کر سکتا ہے کہ نہیں اور اگر نہیں تو پھر یہ سوال بھی ہو گا کہ جب ریاستی ادارے ماورائے عدالت قتل کرتے ہیں تو ان کے بارے میں کیا کہا جائے گا۔ جعلی پولیس مقابلوں میں یا سیکورٹی فورسز کے آپریشنز کے دوران جو لوگ مار دیئے جاتے ہیں ان کے بارے میں انصاف کیا کہتا ہے۔ علاوہ ازیں چند ماہ پہلے حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار کے احاطے میں جو بم دھماکہ ہوا تھا اور جس میں درجنوں شہادتیں ہوئیں تاہم اس سانحہ کے ایک روز بعد ہی اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ رینجرز اورپولیس کے مقابلے میں ایک سو دہشت گرد قتل کر دیئے گئے۔ آزاد ذرائع کہتے ہیں کہ قتل کئے جانے والے یہ تمام لوگ پہلے سے گرفتار تھے جنہیں جعلی مقابلوں کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لہٰذا یہاں بھی یہ سوال موجود ہے کہ کسی ریاستی ادارے کو کیا یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی ملازم کو عدالت میں پیش کرنے سے پہلے ہی سزائے موت دے دے ؟ ان تمام سوالات کا جواب تو یقیناً اُس وقت سامنے آئے گا کہ جب مشال خان کا مقدمہ قتل عدالت میں زیر بحث آئے گا۔ تاہم چونکہ مذکورہ مقدمہ کو ئی قتل کا عام مقدمہ نہیں بلکہ مقتول مشال خان پر توہین مذہب کے مرتکب ہونے کا بہت ہی سنگین الزام ہے جبکہ مبینہ قاتلوں میں سے بعض قاتل اپنے عمل کو انصاف اورثواب بھی قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذا مقدمہ جب ملزمان اورگواہوں کے ساتھ چالان ہو گا اور عدالتی مرحلوں سے گزرتا ہوا اپنے اختتام کو پہنچے گا تو اُس وقت پھر ایک سوال سامنے آئے گا کہ اگر کوئی ایک ملزم بھی یہ کہہ دیتا ہے کہ میں نے مشال خان کو قتل کیا ہے اور میں اپنے اس فعل پر قطعاً شرمندہ نہیں اس طرح کی ممکنہ صورتحال میں سپریم کورٹ اور صدرمملکت کیا کریں گے۔ کیا اس کو پھانسی دے دی جائے گی اور کیا ایسا کرنا ریاست کیلئے ممکن ہوسکے گا؟ صورتحال سنگین ہے اس خطے کے حالات اور خاص طور پر ملک کی اندرونی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہمیں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے بہت سوچنا ہوگا اور کسی ایسے فیصلے پر پہنچنا ہوگا جس سے ہر طبقے اور ہر فکر کے لوگ مطمئن ہوں۔ قانون ہاتھ میں لینے کے واقعات اب تواتر سے ہورہے ہیں اگر فیصلے اس ہی طرح سڑکوں پر ہونے لگے تو ہمارا معاشرہ ایک جنگل کی شکل اختیار کرلے گا۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ مشال خان قتل کیس کو تحمل ، تدبر اور حکمت کے ساتھ ہینڈل کیاجائے۔حکومت اور عدل و انصاف سے منسلک اداروں کی کوشش جیسا کہ ماضی میں بھی رہی ہے ہونی چاہئے کہ مشال خان قتل کیس کو منطقی انجام تک پہنچائےتاکہ لواحقین مطمئن ہوں اور مستقبل میں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی جرات نہ ہو۔ عدالت کا یہ فیصلہ امن وامان برقراررکھنے اورقانون کے احترام کو یقینی بنانے میں مؤثر اورمثبت کردارادا کرئےگا۔ ہمارے ملک میں عدلیہ جتنی فعال ہے اس سےاُمید ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔اللہ رب العزت ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے اور ہمیں اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور شفاعت عطا فرمائے۔ آمین
.