کراچی (تجزیہ:اسد ابن حسن) پاکستان اور ایران کے درمیان فیری سروس گزشتہ ایک برس سے صرف گفت و شنید تک ہی محدود ہے کیونکہ بھارت ایسا نہیں چاہتا اور بھارتی خاص طور پر اس کی انٹیلی جنس ادارے ’’را‘‘ کا چاہ بہار بندرگاہ پر بے انتہا اثر و رسوخ اور وہاں کے دفاتر میں انتظامی عمل دخل اس سروس کے شروع ہونے میں بڑی رکاوٹ ہے جبکہ بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستانی زائرین بے خوف و خطرمقدس مقامات کی زیارت کے لئے ایران پہنچیں کیونکہ ماضی میں زائرین کے قافلوں پر جتنی بھی دہشت گرد کارروائیاں ہوئیں اور سیکڑوں لوگ شہید ہوئے ہیں ان کارروائیوں میں ’’را‘‘ اور کالعدم تنظیموں کا گٹھ جوڑ سامنے آیا تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ایران نے بھارت سے باضابطہ درخواست کی تھی کہ وہ چاہ بہار بندرگاہ کا پہلے مرحلے کا انتظام سنبھال لے۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایران کا چند گھنٹوں کا دورہ کیا اور مختصر عرصے میں بارہ بڑے منصوبوں کے ایم او یو پر دستخط کیے گئے۔ دورے کے بعد اب چاہ بہار بندرگاہ کے مختلف دفاتر میں ان کے سربراہان اور بھارتی وزیراعظم کی ملاقاتوں کی تصاویر واضح طور پر آویزاں ہیں۔ پاکستان اور ایران گزشتہ ایک برس سے اس سروس کو شروع کرنے پر بات چیت کررہے ہیں۔ پاکستان اس معاملے میں اتنا سنجیدہ رہا ہے کہ فیری سروس کے لیے دو بحری جہاز تک خریدنے کی تیاری کی اور ان کے معائنے بھی کرلیے اور چاہ بہار بندرگاہ پر دفاتر اور دیگر معاملات یعنی چاہ بہار سے زائرین کس طریقے سے آگے روانہ ہوں گے وہ تک طے کرلیے تھے مگر بھارت کے دباؤ پر اعتراضات لگائے جاتے رہے۔ بھارت کو خدشہ ہے کہ زائرین کے ساتھ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی آمد بھی چاہ بہار میں بڑھ جائے گی۔ چاہ بہار میں بھارت کی ’’را‘‘ کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے جس کی تازہ مثال کلبھوشن یادیو ہے اور اس کے علاوہ لیاری گینگ وار کے کئی اہم سرغنہ وہاں پناہ لیتے ہیں۔ حال ہی میں وہاں سے ایک سرغنہ پکڑا بھی گیا ہے جبکہ چاہ بہار میں ہی کافی عرصے عزیربلوچ بھی روپوش رہا اور گرفتاری کے بعد ’’را‘‘ کے ساتھ رابطوں کا اقرار بھی کیا۔ چاہ بہار میں گوادر کے سی پیک طرز پر تین ممالک یعنی ایران، بھارت اور افغانستان بھاری سرمایہ کاری کررہے ہیں تاکہ سینٹرل ایشین ممالک اور یورپ تک مصنوعات کی ترسیل کا زمینی راستہ بن سکے۔ چاہ بہار کا فری زون گوادر کے فری زون سے تین گنا بڑا ہے، وہاں بیس سال میں 1800 کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں جبکہ گزشتہ تین برس میں اس میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس زون میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری بھارت کی ہے جبکہ حالیہ دنوں میں نریندر مودی کے ایران کے دورے کے دوران یہ عندیہ دیا گیا کہ بھارت چاہ بہار پورٹ پر 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جبکہ چاہ بہار فری زون میں مزید 16 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ بھارت ایران سے اپنی ضرورت کا 20 فیصد خام تیل خریدتا ہے اور اس نے یہ خریداری ایران پر پابندیوں کے باوجود جاری رکھی مگر ادائیگی ڈالر کی بجائے بھارتی روپے میں کی تاکہ بدلے میں ایران، بھارت سے مختلف اشیاء جن میں دوائیں، کھانے پینے کی اشیا، آٹو پارٹس اور دیگر اشیاء شامل تھیں ان کو خرید سکے۔ بھارت اور ایران کا 2015ء میں تجارتی حجم 13.13 بلین ڈالر تھا جس میں سے بھارت نے 8.95 بلین ڈالر کی اشیاء میں سے 90 فیصد تیل ایران سے خریدا تھا جبکہ ایران نے 4.17 بلین ڈالر کی مختلف اشیاء بھارت سے درآمد کیں۔ بھارت کی جواہر لال پورٹ ٹرسٹ اور کنڈلہ پورٹ ٹرسٹ چاہ بہار بندرگاہ پر 85 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے اور وہاں پر 640 میٹر طویل دو کنٹینر برتھیں اور تین ملٹی کارگو برتھیں تعمیر کررہا ہے۔ بھارت، ایران سے ارزاں نرخوں یعنی دو ڈالر سے کم فی ایم ایم بی ٹی یو خرید کر وہاں یوریا اور ایلومینم کے بڑے کارخانے لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بھارت سالانہ 45 ہزار کروڑ روپے کی یوریا پر سبسڈی دیتا ہے اور اگر یہ کارخانہ چاہ بہار فری زون میں قائم ہوگیا تو بھارت کو کثیر رقم کی بچت ہوجائے گی۔ ایران نے بھارت میں اپنے تین بینکوں، بینک پسرگاڈ اور پرشین بینک کی مین برانچیں اور شمن بینک کی ایک ذیلی برانچ کھولنے کی درخواست کی ہے جس سے اس پر لگی پابندیوں میں کچھ حد تک کمی واقع ہوگئی۔ ایران نے چاہ بہار فری زون میں بھارتی کمپنیوں کو سرمایہ کاری اور اپنی مصنوعات برآمد کرنے کے حوالے سے بے انتہا منافع بخش اور پرتعیش ترغیبات دی ہیں۔ ان تمام زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایران، پاکستان سے زیادہ بھارت کی سنے گا۔