سابق صدر پرویز مشرف دوبارہ منظر عام پر آرہے ہیں اور انہوں نے ایسی سرگرمیاں شروع کردی ہیں‘ جنہیں بعض حلقے سیاسی سرگرمیوں سے تعبیر کررہے ہیں ۔ وہ پریس کانفرنسیں منعقد کررہے ہیں‘ ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو انٹرویوز دے رہے ہیں اور مختلف ملکوں میں سیمینارز سے خطاب کررہے ہیں اور لیکچرز دے رہے ہیں۔ اپنے انٹرویوز اور پریس کانفرنسوں میں اپنے جن عزائم کا اظہار کررہے ہیں‘ انہیں سمجھنے والے سمجھ بھی رہے ہیں۔ اگلے روز ایک بھارتی ٹی وی کو اپنے انٹرویو میں انہوں نے دبے لفظوں میں اس بات کا عندیہ دیا کہ اگر انہیں پاکستان کا بااختیار صدر بننے کا ایک اور موقع ملا تو وہ اس بارے میں سوچیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے اقتدار پر تقریباً 9 سال تک بلا شرکت غیرے قابض رہنے کے باوجود بھی ان کی اقتدار کی ہوس ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔ شاید اس کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ اقتدار ایسا نشہ ہے‘ جو زندگی بھر نہیں اترتا۔
خدا نہ کرے کہ پاکستان پر دوبارہ ایسا وقت آئے‘ جب پرویز مشرف جیسا شخص ایک بار پھر یہاں کے لوگوں پر مسلط ہوجائے کیونکہ پرویز مشرف نے اپنے 9 سالہ اقتدار میں جو کچھ کیا ہے‘ اس کا خمیازہ پاکستان کے عوام کو شاید کئی عشروں تک بھگتنا ہوگا۔ پرویز مشرف پاکستان کی سیاست میں کوئی تھوڑا بہت کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو انہیں اس بات پر شرم محسوس کرنی چاہئے۔ انہوں نے پاکستان کی یکجہتی اور سلامتی کی بنیادیں ہلاکر رکھ دی ہیں اور ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ کونسی ایسی بات ہے‘ جس پر وہ فخر کرسکتے ہیں یا جس کی بنیاد پر وہ قوم کو یہ باور کراسکتے ہیں کہ ان کی دوبارہ ملک کو ضرورت ہے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے دور اقتدار کے بعد ملک دولخت ہوگیا اور بنگلہ دیش یعنی سابقہ مشرقی پاکستان کے عوام اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے درمیان خونریز لڑائی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی لیکن جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے جو کچھ کیا‘ اس سے نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی اس دھرتی کے لوگوں کا مقدر بن گئی ہے۔ خونریز سانحات کے دکھ جھیلنا اور لاشیں اٹھانا روز کا معمول بن گیا ہے۔ سرحد‘ قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں شورش کی آگ تیزی سے بھڑک رہی ہے۔ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پرویز مشرف نے پاکستان کو ایک مضبوط اور ترقی یافتہ ملک بنانے کے لئے اپنا جو سات نکاتی پروگرام دیا تھا‘ ان کے اقتدار کے خاتمے پر ملک اس قدر کمزور اور معاشی طور پر بربادی کا شکار تھا۔ ملک کی سلامتی اور اس کے معاشی استحکام کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کی ایک طویل فہرست ہے‘ جو پرویز مشرف نے کیے اور جن کا احاطہ ان سطور میں ممکن نہیں ہے۔
صرف جنرل پرویز مشرف ہی واحد فوجی جرنیل نہیں ہیں‘ جو کسی قوم کی تباہ کاریوں اور بربادیوں کے ذمہ دار ہیں۔ تاریخ میں کوئی ایسا فوجی جرنیل نہیں ہے‘ جو اقتدار سے ہٹنے کے بعد اپنی کسی بات پر فخر کرسکے یا کوئی قوم اسے اچھے الفاظ میں یاد کرتی ہو۔ دنیا میں کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی فوجی نے قومی نقطہ نظر سے کوئی کامیابی حاصل کی ہو یا تاریخ میں اپنی مذمت اور اپنے خلاف نفرت سے بچ گیا ہو۔ چلّی کے جنرل پنوشے اپنے وقت کے مقبول سیاسی لیڈر ایلینڈے کو قتل کرکے اقتدار میں آئے۔ وہ 25 سال تک اقتدار میں رہے لیکن چلّی آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں ایلینڈے کے قتل کے وقت کھڑا تھا بلکہ حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ انڈونیشیا کے آمر سوہارتو بابائے قوم عبدالرحیم احمد سوئیکارنو کو معزول کرکے طویل عرصے تک اقتدار میں رہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ انڈونیشیا ان کے دور میں دولخت ہوا اور مذہب کے نام پر ایک ریاست مشرقی تیمور وجود میں آئی۔ فرڈی نینڈ مارکوس نے فلپائن کو نئے دور میں لے جانے کے لئے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا‘ جس کی وجہ سے فلپائن آج بھی تباہی و بربادی کا شکار ہے اور وہاں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں‘ جو فوجی جرنیلوں کی غارت گری کی نشاندہی کرتی ہیں اور جن پر آج تک قومیں ماتم کررہی ہیں۔ ریڈولف ہٹلر کا جرمنی جب اتحادی افواج نے چار حصوں میں تقسیم کردیا اور مغربی جرمنی کے نام سے باقیماندہ حصے کے عوام نے ایک منتخب اسمبلی کے ذریعہ اپنا نیا آئین بنایا تو اس میں سب سے پہلے ”آمریت کبھی نہیں“ کے الفاظ تحریر کیے۔ جنرل پرویز مشرف کا نام بھی تاریخ کے ان فوجی آمروں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے‘ جنہیں اس بات کی کھوج نہیں لگانی چاہئے کہ لوگ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
آمریت کی حامی اور عوام دشمن قوتیں بھی اب اگر دوبارہ جنرل پرویز مشرف کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکیں گے۔ کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جنرل پرویز مشرف نے ایکس سروس مین سوسائٹی کے ارکان کے بارے میں کہاکہ وہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آمریت کی حامی ملکی اور بین الاقوامی قوتوں کے لئے جنرل (ر) پرویز مشرف بھی ایک چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ ایکس سروس مین سوسائٹی کے ارکان کے کھاتے میں اتنے قومی جرائم نہیں ہوں گے‘ جتنے پرویز مشرف کے کھاتے میں ہیں۔ خود پاکستان مسلم لیگ (ق) بھی یہ جرأت نہیں کرے گی کہ وہ انہیں اپنی جماعت میں شامل کرے۔ بااختیار صدر بننا تو دور کی بات ہے‘ پرویز مشرف اب ایک کونسلر بھی نہیں بن سکتے۔ بندوق کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرنا بہت آسان ہے اور ایک کونسلر منتخب ہونا بہت مشکل ہے۔ جمہوری سیاست میں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ پرویز مشرف دوبارہ اقتدار میں آئیں اگر خدانخواستہ‘ دشمنوں کے منہ میں خاک‘ پاکستان میں کبھی دوبارہ فوجی حکومت قائم بھی ہوجائے تو حاضر سروس جرنیل خود اقتدار کے مزے لوٹے گا اور پاکستان کو ترقی و خوشحالی کے نعرے لگاکر اپنی حکومت کو طول دے گا۔ وہ پرویز مشرف کو کیوں موقع دے گا۔ پرویز مشرف تو صدارت سے پہلے آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ چکے ہیں۔ چلّی کے جنرل پنوشے صدارت سے پہلے دستبردار ہوئے تھے‘ پھر بھی انہیں فوج کی سربراہی سے استعفی دینا پڑا۔ پرویز مشرف کو دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے پھر سے فوج میں بطور لیفٹیننٹ کمیشن حاصل کرنا ہوگا اور جنرل کے عہدے تک پہنچنے کے لئے طویل انتظار کرنا ہوگا مگر یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ لاکھوں پاکستانی شہریوں کو خونریزی کا شکار بنانے‘ لال مسجد کے معصوم بچوں کو فاسفورس بموں سے جلاکر بھسم کرنے‘ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر پاکستان کو دہشت گردوں کے حوالے کرنے‘ نواب اکبر خان بگٹی کے قتل‘ رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ میں جوئے سے مصنوعی مہنگائی پیدا کرکے غریبوں کی زندگی اجیرن کرنے‘ قومی اثاثوں کو کوڑیوں کے مول فروخت کرنے‘ پاکستانی شہریوں کو امریکا کے حوالے کرنے اور سب سے بڑی بات پاکستان کو عالمی سامراجی جنگ کی آگ میں جھونکنے کے بعد پرویز مشرف کو دوبارہ اقتدار میں آنے یا سیاست میں کردار ادا کرنے کی خواہش نہیں کرنی چاہئے۔ انہیں اس بات پر شکر ادا کرنا چاہئے کہ وہ اس خوفناک انجام سے بچ گئے‘ جو آمروں کا مقدر ہوتا ہے اور اس انجام سے بچے رہنے کے لئے انہیں دوبارہ اس خطرناک کھیل میں آنے سے گریز کرنا چاہئے۔