• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک مبینہ ’’سیکورٹی لیک ‘‘ پر اسٹیبلشمنٹ اور سویلین حکومت کے درمیان تنائو ، جس کا آغاز جنرل راحیل شریف دور کے اختتامی ایام میں ہوا، اب حتمی طور پر ختم ہوگیا ہے۔ اس پر تمام ذی فہم حلقوں نے سکون کا سانس لیا ۔ اس کی وجہ سے سویلینز کو خاصی زک پہنچی، وزیر ِاعظم نے اپنے تین وفادارساتھی کھو دئیے ۔ دوسری طرف فوج کو بھی اہم موڑ پر پہنچ کر اٹھایا ہوا قدم واپس رکھنا پڑا۔ یہ کشمکش ہمارے لئے اہم سبق رکھتی ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں آنے والے تنائو کی تفہیم کے لئے ’’اقتدار رکھنے ‘‘ اور ’’اختیار رکھنے ‘‘ کے مابین فرق کو سمجھنا ہوگا۔ کئی ایک تاریخی وجوہ کی بنا پر فوج ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے ۔ یہ اپنی طاقت کے سرچشمے کو نمو دینے والے تصورات، جیسا کہ’’ نظریہ ٔ پاکستان اور نیشنل سیکورٹی ‘‘کی حفاظت اپنا قطعی استحقاق سمجھتی ہے ۔ اسکے علاوہ اس کے دل میں سویلینز کے لئےتحفظات موجود ہیں ، جنہیں وہ بدعنوان اور نااہل گردانتی ہے۔ ملک میں طویل عرصہ تک فوجی اقتدار رہا ۔ جب سویلینز اقتدار میں ہوتے تو اُن کے سر پر مارشل لا کی لٹکنے والی تلوار اُنہیں ایک خاص حدود کے اندر رکھتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مارشل لا کی دھمکی کا اثر کم ہوتا جارہا ہے کیونکہ بے پناہ داخلی اور خارجی مسائل کے ہوتے ہوئے ملک پر حکومت کرنا بچوں کا کھیل نہیں رہا۔ چنانچہ اب فوج سویلین حکومت کو ہٹا کر براہ ِ راست حکومت کرنے کی خواہش سے دستبردار ہوچکی ہے ۔ اب سویلینز اقتدار کے ساتھ اختیار حاصل کرنا بھی سیکھ رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نواز شریف ، جو کہ ایک پنجابی سیاست دان ہیں ، خوف اور احتیاط کی لکیر عبور کرتے ہوئے شجر ممنوعہ کو چکھنے کی جسارت کررہے ہیں۔ اُنھوں نے کئی ایک معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کو چیلنج کیا ۔ اس سے پہلے ہم نے دیکھا تھا کہ جب آصف زرداری نے ایسی ہی جسارت دکھائی ، کچھ اینٹوں وغیرہ کی بات کی، لیکن پھر فوراً ہی دبئی کی سمت عازم ِ سفر ہوئے ۔
دوسری بات یہ کہ فوج نے مارشل لا کی دھمکی دے کردست کش ہونے کے بعد کچھ مایوس سیاست دانوں اور میڈیا کے کچھ دھڑوں کو ترغیبات ، اور جہاں ضرورت محسوس ہو، مخصوص انداز میں اپنے ترکش کے تیروں کی طرح استعمال کرنا سیکھ لیا ہے ۔ مرکزی جماعتوں پر وار کرنے کیلئے یہ ہتھیار نہایت کارگر ہیں۔ ان کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے والی جماعت کو گھائل کرکے امکانات کا توازن اپنی سمت جھکالینا براہ ِراست مداخلت کرکے برا نام کمانے سے کہیں بہتر ہے ۔ ماضی میں پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) ایک دوسرے کی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے چالیں چلتی تھیں، لیکن آج اب تک یہ دونوں مرکزی جماعتیں سبق سیکھ کر عقل مند ہوچکی ہیں۔ چنانچہ آج اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کا کردار پی ٹی آئی ادا کرتے ہوئے شارٹ کٹ سے اقتدار میں آنے کے خواب دیکھ رہی ہے ۔ ٹی وی چینلز کی مشروم گروتھ کے دور میں نظریاتی وابستگی رکھنے والے کاروباری افراد کے صحافتی میدان میں پائوں رکھنے اور ’’تبدیلی ‘‘کے خواب کو سوشل میڈیا کی دنیا میں حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کرنے والے نوجوانوں کی بھاری کھیپ نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد کو تقویت دی ہے ۔ گزشتہ تین سال کے واقعات پر نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ شطرنج کی بساط پر کون سا مہرہ کہاں ہے اور اس کے دل میں کسے مات دینے کی خواہش مچل رہی ہے ۔
تنائو میں اضافے کی تیسری وجہ فوج کی اعلیٰ کمان میںبتدریج آنے والی طبقاتی تبدیلی ہے ۔ آزادی کے بعد کور کمانڈرز اور آرمی چیفس کا تعلق سیکولر ، جاگیر دار اور مغرب نوازشہری اشرافیہ سے تھا ، لیکن اب قیادت درمیانی طبقوں، جن پر مذہب ، روایت اور قدامت پسندانہ تصورات کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے ، سے ابھرتی ہے ۔ گزشتہ تین عشروں سے اس طبقے سے تعلق رکھنے والے بعض افسران نے بنیاد پرست گروہ ، جنہیں غیر ریاستی عناصر بھی کہا جاتا ہے، تشکیل دئیے۔ ان کا پہلے پہل استعمال افغان جہاد کے دوران دیکھنے میں آیا، لیکن اس کے بعد بھی سلسلہ مفقود نہ ہوا۔ آج پاکستان انہی عناصر کے ہاتھوں لہو لہا ن ہے ۔ نام نہاد ڈان لیکس میں انہی امور پر سوال اٹھایا گیا تھا۔ اس پر مشتعل ہونے کی وجہ سب کے سامنے ہے ۔ اس سے ادارے کی کمزوری عیاں ہوئی تھی ۔
چوتھی وجہ معاشی دبائو اور غیر ملکی امداد میں واقع ہونے والی کمی ہے ۔ سویلینز گڈ گورننس قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ اس کی وجہ سے سرمایہ کاری اور ریاست کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی۔ سویلینز کی بدعنوانی اور ٹیکس چوری کی وجہ سے قومی دولت کو نقصان پہنچا۔ چنانچہ فوج کو ملنے والی رقوم کا حجم کم ہوا ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تاریخ کے جس دور میں معاشی بہتری اور سیاسی استحکام کے لئے سول ملٹری اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی انتہائی ضرورت تھی، اسی دور میں ان کے درمیان تنائو بڑھا۔
تنائو کی ایک وجہ تزویراتی پالیسیاں بھی ہیں۔ خطے کے معروضی حالات کی وجہ سے انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدی تنائو پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ فوجی قیادت کا امریکہ کے ساتھ رومانس کا دور ختم ہوچکا۔ اس دوران پاک چین اقتصادی راہداری نے پاکستان کو اس قابل بنادیا ہے کہ وہ اپنی معیشت کو پائوں پر کھڑا کرسکے ۔لیکن اس کے لئے اداروں کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے ۔ اس وقت معروضی انداز میں صورت ِحال کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ ملکی استحکام اور قومی مفاد کے لئے نام نہاد تزویراتی تصورات کو خیر باد کہنا پڑے گا۔ ضروری ہے کہ سویلین اور فوجی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کا ایک مربوط چینل ہو تاکہ تعلقات کو تنائو کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے ۔ اس کے لئے پاکستان کے قومی مفاد کا تعین کرنا ہوگا۔ سب سے اہم، دیگر جدید اقوام کی طرح پاکستان میں بھی قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کا تصور رائج کرنا ہوگا۔



.
تازہ ترین