سکھر (بیورو رپورٹ،چوہدری محمد ارشاد) شہر سمیت آس پاس کے علاقوں میں گیسٹرو کا مرض وبائی شکل اختیار کرگیا، 24 سے زائد بچوں کو سول اسپتال میں علاج کے لئے لایا گیا، اسپتال میں بیڈز کم ہونے کے باعث ایک بیڈ پر 3-3بچوں کا علاج کیا جانے لگا، بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے باعث بچوں کے ورثاء کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سکھر، پنوعاقل، صالح پٹ، کندھرا، علی واہن، سائیٹ ایریا، بچل شاہ میانی سمیت دیگر مضافاتی علاقوں میں گرمی کی شدت میں اضافے اور مضر صحت و آلودہ پانی کے استعمال کے باعث گیسٹرو کا مرض تیزی سے پھیلنے لگا ہے۔ ضلع سکھر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 2درجن سے زائد بچوں کو گیسٹرو کے مرض کی شکایات پر سول اسپتال سمیت دیگر سرکاری و نجی اسپتالوں میں لایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے بچوں کو طبی امداد فراہم کی، حبیب اللہ، کامران، ادریس، عائشہ، جاوید، سونیا سمیت دیگر بچے سول اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ سول اسپتال میں گیسٹرو کے مرض میں مبتلا بچوں کی تعداد 2درجن سے زیادہ ہونے کے باعث بیڈز کم پڑ گئے، اسپتال انتظامیہ کی جانب سے ایک بیڈ پر 3-3بچوں کا علاج کیا جارہا ہے جبکہ شدید گرمی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث بچوں کے ورثاء مشکلات سے دوچار ہیں ۔ زیر علاج بچوں کے ورثاء کا کہنا ہے کہ ہم غریب لوگ ہیں، اس لئے بچوں کے علاج کے لئے سرکاری اسپتال آئے ہیں مگر یہاں پر سہولیات کا فقدان ہے، بیڈز نہ ہونے کی وجہ سے ایک بیڈ پر تین تین بچوں کا علاج کیا جارہا ہے جبکہ بجلی کی فراہمی بھی معطل ہے۔ انہوں نے بالا حکام سے اپیل کی کہ نوٹس لیکر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ دوسری جانب سٹیزن ویلفیئرآرگنائزیشن کے زیر اہتمام سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کی کمی اور آکسیجن نہ ملنے کے باعث نوزائیدہ بچے کے جاں بحق ہونے کیخلاف گھنٹہ گھر چوک پر احتجاجی مظاہرہ کرکے اسپتال انتظامیہ کیخلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کی قیادت سید عمران علی اور اشفاق بھٹی کررہے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ سکھر سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے، جہاں پر غلام محمد مہر میڈیکل کالج (سول اسپتال) جیسا ٹیچنگ اسپتال موجود ہے مگر اس کے باوجود دور دراز علاقوں سے علاج و معالجے کے لئے آنیوالے مریضوں کو طبی سہولیات فراہم نہیں کی جارہی ہے، انور پراچہ اسپتال کے نزدیک رکشے میں پیدا ہونیوالے نوزائیدہ بچے کو بروقت طبی امداد اور آکسیجن فراہم نہ کیے جانے سے بچے کے دم توڑنے کے واقعہ نے محکمہ صحت کے افسران اور سرکاری اسپتالوں کی انتظامیہ کی جانب سے کیے جانیوالے بلند و بانگ دعوؤں کی پول کھول دی اور ثابت کردیا ہے کہ افسران کے اعلانات و احکامات صرف اور صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔