مدینۃ الاولیاء ملتان برصغیر کا قدیم ترین شہر ہے۔ اس کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ اس بنا پر بحیثیت شہر ملتان کی قریب ترین مماثلت دمشق ہے۔ دونوں ہزاروں سالوں سے بغیر انقطاع کے زندہ و آباد ہیں۔ شہر کے محل وقوع کی خاص بات پنجاب کے پانچ دریاؤں کا سنگم ہے جس نے ملتان کو برصغیر میں ایک تجارتی مرکز اور بحیرۂ عرب سے زمینی و دریائی رابطے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے ملتان پاکستان کے تقریباً وسط میں ہے۔
حضرت موسیٰ پاک شہیدؒ، حضرت سیّد حامد گنج بخش گیلانیؒ کے بیٹے تھے۔ حضرت سیّد حامد گنج بخش گیلانی کے والد سیّد عبدالرزاق شاہ گیلانیؒ، دادا حضرت سیّد عبدالقادر ثانیؒ اور پردادا حضرت سیّد شیخ بندگی محمد غوث گیلانی حلبی اوچیؒ تھے جو کہ حضرت سیّد شیخ شمس الدین جیلانی حلبیؒ کے اکلوتے فرزند تھے۔ سیّد بندگی محمد غوث گیلانی حلبی اوچیؒ شام سے ہجرت کر کے اُوچ تشریف لائے اور شمعِ رشد و ہدایت روشن کی جس کی روشنی برصغیر میں پھیل گئی۔ اُن کا شجرۂ نسب نویں پشت پر قادریہ سلسلہ کے اوّلین بزرگ غوث الاعظم میراں محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے جا ملتا ہے۔ غوث الاعظمؒ 470ھ میں ملک فارس (ایران) کے علاقہ گیلان میں پیدا ہوئے اور 561ھ میں وفات پائی۔ آپ کی شہرۂ آفاق تصانیف ’’غنیۃ الطالبین‘‘ اور ’’فتوح الغیب‘‘ اپنا نعم البدل نہیں رکھتیں۔ چشتیہ سلسلہ کے بانی حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ اور سہروردیہ سلسلہ کے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ بھی آپ کے فیض یافتگانِ صحبت میں شامل ہیں۔ آپ کا مزار مبارک بغداد (عراق) میں ہر خاص و عام کی زیارت گاہ ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب والد ماجد سیّد ابی صالح محمد موسیٰؒ کی طرف سے حضرت امام حسن ؓ اور والدہ ماجدہ سیّدہ اُم الخیرہ فاطمہ کی طرف سے حضرت امام حسینؓ سے جا ملتا ہے جو نواسۂ رسولؐ ہیں، اس لیے ہم ’’حسنی الحسینی سیّد‘‘ کہلاتے ہیں۔حضرت شیخ بندگی محمد غوث گیلانی 833ھ میں حلب (شام) میں پیدا ہوئے۔ آپؒ نے تحصیلِ علم کی غرض سے خراسان، ترکستان، ایران اور عرب ممالک کا سفر کیا۔ ہندوستان کے سفر کے دوران لاہور اور ناگور میں بھی کچھ عرصہ قیام فرمایا اور والد کی وفات کے بعد آپ خراسان کے راستے ہندوستان تشریف لائے اور آخرکار 877ھ میں اُوچ میں سکونت پذیر ہوئے۔ 923ھ میں اوچ میں واصل بحق ہوئے اور وہیں مدفون ہیں۔ آپؒ اور آپؒ کے خاندان کے مریدوں، خلیفوں اور عقیدت مندوں میں شاہ دہلی سلطان سکندر لودھی، حاکمِ ملتان نواب میراں، شیرشاہ ملتانی، شیخ داؤد بندگی کرمانی کے علاوہ شمالی ہندوستان، افغانستان اور سندھ میں مریدین کی کثیر تعداد ہے۔حضرت موسیٰ پاک شہیدؒ نے قرآنِ مجید کم عمری ہی میں حفظ کر لیا اور جملہ دینی علوم سے فارغ التحصیل ہونے پر آپؒ کے والدِ گرامی نے آپ کو اپنا جانشیں مقرر فرمایا اور ساتھ ہی اپنا خاص خرقہ مبارک، سجادہ اور انگوٹھی عطا فرمائی۔ والد کی وفات کے بعد آپؒ کے بڑے بھائی سیّد نظام الدین عبدالقادر ثالثؒ نے آپ کی جانشینی پر اعتراض اٹھایا تو اس معاملے کو دربارِ شاہی میں لے جایا گیا۔ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے ان بزرگوں کو فتح پور سیکری مدعو کیا اور علماء قضاۃ اور رؤسائے دربار کو تحقیق و تفتیش پر مامور کیا۔ قرآن مجید کے حکم کے مطابق مجلس شوریٰ بلائی گئی اور اراکینِ مجلسِ شوریٰ نے فیصلہ حضرت موسیٰ پاک شہیدؒ کے حق میں لکھ کر دربار میں پیش کر دیا۔ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے مصلحتاً عبدالقادر ثالث کو اپنے پاس رکھا اور حضرت موسیٰ پاک شہیدؒ کو لشکر کے ساتھ دکن بھیج دیا۔ دکن کی مہم سے فارغ ہو کر آپ آگرہ آئے تو بادشاہ پانصدی کا عہدہ عطا کر کے نہایت عزت و احترام سے رخصت کیا اور آپؒ دہلی تشریف لے آئے۔ دہلی میں بہت سے لوگ آپ کے مرید ہوئے جن میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قابلِ ذکر ہیں۔
دہلی میں رشد و ہدایت کی شمعیں روشن کرنے کے بعد آپؒ اوچ کی جانب روانہ ہوئے اور اپنے والدِ ماجد کی مسند پر بیٹھ کر دین کی تبلیغ و تلقین شروع کی۔ آپؒ 1010پ میں قزاقوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور اوچ میں دفن ہوئے۔ آپؒ کے جسدِ مبارک کو وہاں سے نکلوا کر ملتان کے قریب موضع منگے ہٹی میں امانتاً دفن کیا گیا۔ پندرہ سال بعد آپؒ کے جسدِ مبارک کو ملتان منتقل کیا گیا۔ روایت کے مطابق جب جسدِ مبارک کو وہاں سے نکال کر ملتان لایا گیا تو وہ صحیح حالت میں تھا اور کسی قسم کا نقصان نہ ہوا تھا۔ تابوت دستیاب نہ ہو سکا، اس لیے جسدِ مبارک کو گھوڑے پر سوار کروا کے ملتان لایا گیا۔ لوگ دیکھ کر بے حد متعجب اور معتقد ہوئے۔ ان کے جسدِ اطہر کو اس روضۂ پاک میں دفن کیا گیا جہاں آج بھی آپؒ کا مزار واقع ملتان ہر خاص و عام کے لیے مرجع و خلائق ہے۔ آپ کی تصنیف ’’تیسیرالشاغلین‘‘ ایک اہم علمی یادگار ہے۔میرے والد مخدوم سیّد علمدار حسین گیلانی، مخدوم سیّد غلام مصطفی شاہ گیلانی کے بیٹے اور پیر سیّد محمد صدرالدین شاہ گیلانیؒ کے پوتے تھے۔ پیر صدرالدین شاہ حضرت پیر سیّد ولایت حسین شاہ گیلانیؒ کے فرزندِ ارجمند اور سجادہ نشیں تھے۔ آپ کا شجرۂ نسب حضرت سیّد ابوالحسن جمال الدین المعروف موسیٰ پاک شہیدؒ (952ھ - 1010ھ) سے جا ملتا ہے۔
حضرت موسیٰ پاک شہیدؒ کا مزار شہرِ فصیل کے جنوبی حصہ میں واقع ہے۔ جس دروازے سے جسدِ مبارک کو شہر کے اندر لے جایا گیا وہ ’’پاک دروازہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا، اس دروازے کو اُس وقت سے اسی نام سے موسوم کیا گیا ہے جب سے اسکے اندر یہ مقبرہ تعمیر کیا گیا ہے اور اس سے ملحقہ دروازہ جس میں جسدِ مبارک کے ساتھ آنے والے قافلے کی خواتین داخل ہوئیں اس کا نام اسی دن سے ’’حرم دروازہ‘‘ مشہور ہو گیا۔
حضرت موسیٰ پاک شہیدؒ کی وفات پر آپؒ کے بڑے بیٹے حامد گنج بخش ثانی گیلانی المعروف شیخ حامدؒ نے ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی اور درگاہ عالیہ حضرت پیر پیراں موسیٰ پاک شہیدؒ ملتان کے سجادہ نشیں مقرر ہوئے۔ آپ کی تمام عمر درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں بسر ہوئی۔ آپ کے بعد آپ کے فرزند حضرت نواب موسیٰ پاک دین المعروف شیخ موسیٰؒ سجادہ نشیں قرار پائے۔ حضرت موسیٰ پاک دین علم و فضل میں یکتا ہونے کے علاوہ روحانیت میں بھی اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔
شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر جب اپنے بھائیوں کے ساتھ تخت کے حصول کی جنگ میں مصروف تھے، اُس وقت شیخ موسیٰ صوبہ ملتان کے دیوان اور پیشکار (گورنر) تھے۔ شہنشاہ اورنگزیب جب اپنے بھائی داراشکوہ کی تلاش میں لشکر کے ساتھ ملتان پہنچے تو اس سے پہلے ہی دارا شکوہ بھکر کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ شہنشاہ اورنگزیب نے شیخ موسیٰ (دیوان) سے داراشکوہ کے بارے میں یوں دریافت کیا کہ دارا بے شکوہ کجا است؟ (دارا بے حیثیت کہاں ہے؟) شیخ موسیٰ نے جرأت سے اُن کے اس سوال کا جواب دیا کہ دارا باشکوہ رفت رفت (دارا باحیثیت) اگر یہاں ہوتے تو وہ میرے مہمان تھے تو مَیں کبھی آپ کے حوالے نہ کرتا۔ شہنشاہ اورنگزیب اپنی بات کی اس گستاخانہ جرأت سے تردید پر سیخ پا ہوئے اور شیخ موسیٰ کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے معزول کر دیا۔
اُس دن سے آج تک حضرت پیر پیراں موسیٰ پاک شہیدؒ کے سجادہ نشیں نے نہ کسی قسم کے دنیاوی عہدے کو قبول کیا اور نہ ہی سیاست میں آئے یا کسی انتخاب میں حصہ لیا۔ جب مَیں وزیراعظم بنا تو اخبارات نے میرے نام کے ساتھ مخدوم لکھنا شروع کر دیا جس پر مَیں نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ میرے نام کے ساتھ مخدوم نہ لکھا جائے کیونکہ مَیں خادم کی حیثیت سے کام کرنے آیا تھا۔ بطور وزیراعظم جب مَیں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی گیا تو وہاں پر شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے تحت حضرت موسیٰ پاک شہیدؒ چیئر قائم کی جس کا مقصد یہ تھا اس خطے کے اولیائے کرام پر کام کروایا جائے جس کے بعد پہلی کتاب حضرت موسیٰ پاک شہیدؒ کی سوانح پر شائع کی گئی۔ آپ کا سالانہ عرس مبارک ہر سال 18شعبان سے لیکر20شعبان تک ملتان میں منایا جاتا ہے، جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں۔
.