بہت عرصے بعد اخبارات کے پہلے صفحے پر ایک تصویر دیکھ کر دلی خوشی ہوئی یہ وزیراعظم اور چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ کی ایک گروپ تصویر تھی ۔پانامہ کیس کے بعد غالباً وزیراعظم کے ہمراہ چاروں وزراء اعلیٰ کی یہ پہلی تصویر تھی جو مشترکہ مفادات کونسل(سی سی آئی) کے اجلاس کے فوراً بعد اخبارات کیلئے جاری کی گئی، سی سی آئی کا فورم 1973 کے آئین میں اس لئے تشکیل دیا گیا تھا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان مشترکہ اختیارات اور وسائل کے کسی بھی مسئلے کو باہمی مشاورت سے اور طے کردہ طریقہ کار کے تحت حل کیا جائے۔ کونسل کا اجلاس 90 دن میں ایک مرتبہ ضرور ہونا چاہئے مگر اس بار اجلاس پانچ ماہ بعد ہوا، اس دوران ملک میں سیاسی مدوجزر اور نیشنل وارمنگ کے ساتھ لیڈروں کے بیانات کا والی بال جاری رہا اور بدقسمتی سے صوبائیت کے کارڈ بھی کھیلے گئے لیکن شکر ہے کہ دو ماہ تاخیر سے سہی مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوگیا۔ اجلاس میں بارہ نکات پر بات چیت ہونی تھی مگر وزیراعظم کی دوسری مصروفیات کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اب تک ہونے والا یہ 31 واں اجلاس تھا اگر آئین میں طے شدہ نوے روز کی مدت کے مطابق متواتر اجلاس ہوتے رہتے تو یہ 135واں اجلاس ہوتا اور شاید کالاباغ ڈیم سمیت پانی، بجلی، گیس اور دیگر بہت سے مسائل وفاق اور صوبوں کے درمیان حل ہوچکے ہوتے غلط فہمیوں، رنجشوں اور بدگمانیوں کی فضا ختم ہوکر مشترکہ مفادات میں تبدیل ہوچکی ہوتی، ہماری قومی سیاست میں آزادی سے لیکر اب تک 70 برسوں میں 32 سال مکمل طور پر غیرجمہوری رہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جمہوری نظام اور جمہوری جدوجہد کے لحاظ سے دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ایک مثالی ملک ہے 1973 کا آئین جمہوری استحکام کی ضمانت فراہم کرتا ہے جمہوری عمل بہتے پانی کی مانند ہے جس کی روانی جتنے تسلسل سے جاری رہے اتنا ہی پانی شفاف ہوتا رہتا ہے ایسا شفاف کہ جس میں ہر ایک کو اپنا عکس بھی نظر آتا ہے اور آر پار بھی بہت واضح اور صاف نظر آنے لگتا ہے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم سے گلے شکوے بھی ہوئے اور مسائل کو حل کرنے کیلئے بامقصد اور مدلل بات چیت بھی، وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے صوبوں کیلئے ایل این جی اور گیس پالیسی کے علاوہ پانی کی تقسیم اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی طرف سے نیٹ ہائڈل منافع پر قائم کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد کا مسئلہ زیر بحث آیا، بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے بھی وفاق اور صوبوں میں پانی کی تقسیم، بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل اور وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے حوالے سے گفتگو کی ۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ تیل اور گیس کی پیداوار کے مقامات پر پانچ مربع کلومیٹر کے علاقے میں مقامی آبادی کو لازمی گیس فراہم کی جائے ۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ درست مگر مجموعی طور پرکونسل کا یہ اجلاس بے نتیجہ رہا اور پانی کی تقسیم کے مسائل کے جائزے اور حل کو چاروں وزرائے اعلیٰ پر مشتمل کمیٹی پر چھوڑ دیا گیا۔
بلوچستان کے32اضلاع میں سے ایک طرف سبی ہرنائی چاغی تربت جیسے دنیا کے گرم ترین تو دوسری جانب کوئٹہ قلات زیارت پشین، قلعہ عبداللہ وغیرہ ملک کے سرد ترین علاقے ہیں۔ بلوچستان 1952ء سے پورے ملک کو سوئی سے گیس فراہم کر رہا ہے لیکن یہاں گنتی کے آٹھ نو ضلعی ہیڈکوارٹرز کے شہری علاقوںمیں گیس فراہم کی جارہی ہے سردیوں میں سرد علاقوں میں گیس کی طویل لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو گرمیوں میں گرم علاقوں سمیت پورے بلوچستان میں دس سے بیس گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے پانی کے مسئلے پر بھی صورتحال عجیب ہے سندھ بلوچستان سرحد پر حب ڈیم سے بلوچستان کراچی کی آدھی آبادی کو پینے کا پانی سپلائی کرتا ہے اس وقت گوادر کو پانی سپلائی کرنے والے ڈیم میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پندرہ روز کا پانی رہ گیا ہے اس کے بعد پورا شہر نہایت مہنگے داموں ٹینکر کا پانی خریدے گا، دریائے سندھ سے بلوچستان کے ضلع نصیرآباد اور جعفرآباد میں بلوچستان کے حصے سے کم نہری پانی فراہم کیا جارہا ہے گزشتہ برس صوبائی حکومت نے کوئٹہ میں پانی کی قلت کے خطرناک مسئلے کو حل کرنے کیلئے یہاں کی پٹ فیڈر نہر سے بھاری پمپوں کے ذریعے سطح سمندر سے 5500 فٹ بلندی پر واقع کوئٹہ کی تقریباً 25 لاکھ آبادی کو پانی فراہم کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے اگر بلوچستان کو سندھ سے نہری پانی کا پورا حصہ نہیں ملتا اور کوئٹہ کو پانی کی فراہمی نہیں ہوتی تو یہاں انسانی المیہ جنم لے گا اور شہر دس بارہ سال بعد گھوسٹ سٹی بن جائے گا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ٹیوب ویل بند ہوجاتے ہیں تو سالانہ ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں پاک ایران سرحدی علاقوں میں کئی دہائیوں سے ہمسایہ ملک ایران بجلی فراہم کر رہا ہے اب ہمارے تعلقات اگر خراب ہوتے ہیں تو ان علاقوں میں کیا صورت ہوگی؟ اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان کو بجلی کی سپلائی بھی اس کے حصے سے کم ملتی ہے بلوچستان کا رقبہ وسیع آبادی بکھری ہوئی اور کم ہے اندرون بلوچستان چھبیس ہزار چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں جو بجلی، پانی، گیس سمیت زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں 80 فیصد رقبے میں موبائل فون نیٹ ورک سروس بھی کام نہیں کرتی نہ تو یہاں عوام کا احتجاج کارگر ہوتا ہے اور نہ کوئی ان کی داد رسی کو پہنچتا ہے ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ میں پہلی بار آبادی کے علاوہ رقبے پسماندگی اور محرومی کو بھی محاصل کی تقسیم کے فارمولے میں شامل کیا گیا تھا اور ماضی کے مقابلے میں اس صوبے کو زیادہ فنڈ ملے تھے اس کے بعد امید تھی کہ حصے کے اعتبار سے اس کے فنڈز میں مزید اضافہ ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان سندھ اور خیبرپختونخوا کے کتنے ہی مسائل ہیں جو مدتوں سے حل نہیں ہوسکے نیا این ایف سی ایوارڈ بھی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرکے ڈھائی سال کی تاخیر کا شکار ہوچکا ہے اسے بھی جلد منظور کیا جانا چاہئے اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو بقول شاعر اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ۔
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
.