• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ نئے سائبرکرائم لا کا غلط استعمال کرتے ہوئے اُن کی جماعت کے ’’سوشل میڈیا سیاسی کارکنوں‘‘کو ہراساں کررہی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ حکومتی رویہ ’’جمہوریت میں ناقابل ِ برداشت ‘‘ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا ’’سوشل میڈیا سیل ‘‘ ملک کا سب سے جارحانہ سیاسی بازو ہے۔ اس کے تیزو تند حملوں سے حریف پناہ مانگتے ہیں، بعض پانی بھی نہیں مانگتے۔ یہ جمہوریت کے تصور اور آزادی ٔ اظہار کے اصول کا منفی استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے جمہوری اور انسانی حقوق کا پامال کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ پی ٹی آئی کی میڈیا یلغارپارٹی کے ٹائیگرز کے سوشل میڈیا، جیسا کہ فیس بک اور ٹوئیٹر پر بیانات کی بمباری ،دھمکیوں کے دھماکے ، گالیوں اور استہزا کے میزائل حملے مخالفین کااس طرح ’’مکو ٹھپ‘‘ سکتے ہیں کہ وہ چار وناچار یا توخاموشی کی چادر کو اپنا واحد دفاع گردانتے ہیں یا راہ ِفرار اختیار کرلیتے ہیں۔
تاہم اس حکمت ِ عملی کے اپنانے میں پی ٹی آئی تنہا نہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن)اور بعض ادارے بھی اس پلیٹ فارم کا موثر استعمال کررہے ہیں۔ تاہم ان میں ایک فرق ہے۔ پی ایم ایل (ن) کا انداز دفاعی ہے ، جبکہ اداروں کے سوشل میڈیا ہتھیار جارحانہ پن کو اپنا رہنما اصول بنائے ہوئے ہیں۔ پی ایم ایل (ن)کی سوشل میڈیا ٹیم کا فوکس پارٹی کے ترقیاتی کاموں کو اجاگر کرنے اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے تک محدودہے ، جبکہ موخر الذکر اپنے ناقدین کو ’’غدار اور سکیورٹی رسک ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس جارحانہ پن کی وجہ سے حکومتی ادارے عدم استحکام کا شکار ہوسکتے ہیں اور کچھ افراد کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔اس ضمن میں کچھ بلاگرز کا کیس ایک چشم کشا مثال ہے جنہیں ’’غدار ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا، خاص طور 140 حروف کی حدرکھنے والے ٹوئیٹر کا استعمال سول ملٹری تنائو کی تاریخ رکھنے والے اس ملک میں اظہاریے کی بجائے تیز وتند سیاسی بیانیے کا تاثر گہرا کرتا ہے۔ اچھے حالات میں ، جبکہ راوی چین ہی چین لکھتا ہو، سول ملٹری تعلقات کے شانوں پر ماضی کا بوجھ رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے غیر یقینی پن کی فضا گہری رہتی ہے۔ اس لیے طاقت کا توازن پیدا کرنے کے لیے اس کا استعمال نازک سیاسی صورت ِحال کو برہم کرسکتا ہے۔ گزشتہ چند ایک برسوںسے مشاہدہ اسی تاثر کی تصدیق کرتا ہے۔ درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سرکاری نوٹیفکیشن کو ’’مسترد ‘‘ کرنے سے ایک مرتبہ پھر ملک میں اداروں کے درمیان محاذ آرائی کا خطرہ پیدا ہو گیا ، اور ملک کا آئینی نظام لرزہ براندام دکھائی دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ معقول رویے غالب آئے اور معاملہ خوش اسلوبی سے سلجھ گیا۔ تاہم اس سے ایک بات کی تصدیق ہوئی کہ سول ملٹری پیغام رسانی کے لیے سوشل میڈیا مناسب ذریعہ نہیں ، اس سے گریز کرنا بہتر ہوگا۔
مغرب میں بھی اس بات پر بحث جاری ہے کہ کہیں سوشل میڈیا ’’اینٹی سوشل ‘‘ تو نہیں۔ اس کی وجہ سے افراد کے درمیان بگاڑ اور تنائو پید اہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں عدم برداشت کے رویے بہت توانا ہیں، سوشل میڈیا کی سماج مخالف یلغار کے بہت سے پریشان کن پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک معاشرہ جس قدر جذباتی، مذہبی شدت پسندی اور ثقافتی عدم برداشت کے رنگ میں رنگا ہوگا، سوشل میڈیا اس کے درمیان بگاڑ کو اتنا ہی نمایاں کرے گا۔ درحقیقت ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے ذریعے انتہا پسندی، تنگ نظری اور نفرت اور تعصب کی ترویج ہورہی ہے۔
یہ بات بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ شخصی آزادی ، اظہار کی آزادی اور برداشت کے رویے جمہوریت کی روح ہیں۔ ایک جمہوری آئین ان کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم جہاں ایک شخص کی آزادی کی حدود شروع ہوتی ہیں، دوسرے کی ختم ہوجاتی ہیں۔ اس حد ِ فاصل کا خیال رکھنا ایک جمہوری اور مہذب معاشرے کی صفت ہوتی ہے۔ ان حدود کی پامالی پر قانون حرکت میں آسکتا ہے ، اور متاثرہ شخص ہتک عزت کا دعویٰ کرسکتا ہے ، لیکن پاکستان میں شہریوں کو یہ سہولت میسر نہیں۔ ہماری عدلیہ ہتک عزت کے کیسز نمٹانے کی شہرت نہیں رکھتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرت کا ایک دریا بہہ رہا ہے۔ تنزوتند بیانیہ رکھنے والی ایک سیاسی اقلیت اس مصنوعی بیانیے کی سرزمین پر ایک سیاسی اکثریت کا ناطقہ بند کرسکتی ہے۔ چونکہ یہاں گمنام رہ کر وار کرنا آسان ہوتا ہے ، اس لیے ابہام اور شک کی گہری دھند میں بہت سے اوچھے وار کردیے جاتے ہیں۔ چونکہ ہمارے تعلیم اور تہذیب کے پیمانے افسوس ناک حد تک پست ہیں، اس لیے گمنام سکرین کے سامنے بیٹھا شخص کسی کی بھی عزت اچھالنے کے لیے آزادہے ، اور اسی کو ہنر مانا جاتا ہے۔
تاہم سوشل میڈیا صرف فیس بک اور ٹوئیٹر تک ہی محدود نہیں۔ اس کے علاوہ بھی ابلاغ کے بہت سے apps ہیں۔ یہ apps آپ کی شناخت اور ابلاغ کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں۔گزشتہ دنوں ڈان لیکس کیس کے دوران ایک محقق نے پتہ چلایا کہ ریٹائرڈ افسران نے Whatsapp پر ایک خوفناک مہم چلائی ہوئی تھی۔ اس نے جمہوری حکومت کو ہلا کررکھ دیا۔ اسی طرح فرقہ واریت پر مبنی مواد کی تشہیر اورمسلکی مخالفین کے خلاف مہم بھی سوشل میڈیا پر زہرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ بہت سے اینکرز ، صحافی اور نام نہاد دانشور ریگولر میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی انتہائی فعال ہیں۔ جو کسر ’’یہاں ‘‘ رہ جاتی ہے ، ’’وہاں ‘‘پوری کرلیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو سوشل میڈیا گروپ خود کو زیادہ پاکباز اور متقی ظاہر کرتے ہیں، وہ انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ یہی کچھ نام نہاد لبرلز کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے۔دراصل سوشل میڈیا کو نئے دور کی ابلاغ کی ضروریات کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اسکے ذریعے مشرق ِوسطیٰ میں بعض آمروں کیخلاف کامیاب تحریک بھی چلی۔ لیکن اس کے ذریعے انتہاپسندی کے نظریات کاپھیلائو بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
اس کی وجہ سے مشر ق ِوسطیٰ انتہائی ہولناک خانہ جنگی کا بھی شکار ہوچکا ہے۔ سوشل میڈیا وہاں جمہوری اقدار پیدا کرنے میں ناکام رہا۔ پاکستان کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ یہ سوشل میڈیا کو انٹی سوشل روپ دھارنے سے روکے ، مبادا یہ جمہوریت اور سماج کیلئے ایک خطرہ بن جائے۔



.
تازہ ترین