• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہے کوئی جو آج بلبن کی تاریخ دہرائے!!.....آخر کیوں؟…رؤف کلاسرا

بلبن کے دربار میں ملتان سے آنے والے پیامبر کے بقول ہندوستان کو اس وقت تاتاریوں کی یلغار کا شدید خطرہ تھا جو افغانستان کے ذریعے داخل ہو کر اس خطے کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا چاہ رہے تھے ۔بلبن نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن اسے ان منگولوں کی یلغار کا سامنا ہوگا جنہوں نے اسے اس وقت غلام بنا لیا تھا جب وہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ وقت کی لہریں اسے بہت پیچھے لے گئیں۔
غیاث الدین بلبن ایک ترک قبیلے میں پیدا ہوا تھا۔ منگولوں نے جب اس کے علاقے میں تباہی مچائی تو وہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ انہوں نے بلبن کو خواجہ جمال الدین بصری کے ہاتھ بغداد میں فروخت کر دیا تھا۔ وہ مختلف ہاتھوں فروخت ہوتا ہوا ہندوستان کے اس وقت کے بادشاہ التمش کے دربار میں لایا گیا جسے اس بچے میں کچھ غیر معمولی صلاحیتیں نظر آئیں اور اس نے اسے خرید لیا۔ وہ بہت جلد بادشاہ کے اتنے قریب آ گیا کہ وہ چالیس اہم ترین وزیروں میں شامل کر لیا گیا۔ ناصر الدین محمود کے دور میں وہ ایک طاقتور ترین وزیر کے طور پر ابھرا۔ ناصر الدین نے بلبن کی بیٹی سے شادی کر لی جس سے وہ مزید طاقتور بن کر سامنے آیا۔ 1266ء میں ناصر الدین کی موت کے بعد بلبن ہندوستان کا بادشاہ بن گیا۔ بلبن نے پورے ہندوستان میں اپنا انٹیلی جنس نیٹ ورک پھیلایا یوں وہ اپنے خلاف کوئی بھی بغاوت ہونے سے پہلے اسے کچل کر رکھ دیتا۔ ناصر الدین کے دربار کے چالیس وزیر بہت زیادہ طاقتور ہو چکے تھے اور وہ ”وار لارڈز“ بن چکے تھے۔ ان وار لارڈز کو ختم کرنے کیلئے اس نے کچھ کو قتل کرایا اور بعض کو دور دراز علاقوں میں بھیج دیا گیا۔
ناصر الدین کے دور اقتدار میں منگولوں نے کئی دفعہ ہندوستان کے اندر آ کر اپنی کارروائیاں کی تھیں حتیٰ کہ لاہور کو بھی اپنی لوٹ مار کا نشانہ بنایا تھا۔ آج ایک بار پھر وہ منگول ہندوستان کو تباہی کا شکار کرنے شمالی علاقوں سے حملہ آور ہونے کیلئے آ رہے تھے۔
بلبن اپنے ماضی سے باہر نکلا اور فوراً آواز دی کہ اس کے بیٹے شہزادے محمد کو دربار میں حاضر کیا جائے۔ تمام درباری سمجھ گئے کہ بادشاہ نے منگولوں کو ہندوستان میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے کیا فیصلہ کیا تھا۔ اتنی دیر میں شہزادہ محمد دربار میں لایا گیا۔ بلبن آگے بڑھا اور اپنے سب سے پیارے بیٹے کو کہا کہ اسے فوری طور پر ملتان کا گورنر مقرر کیا جا رہا تھا اور اس کا کام منگولوں کو روکنا تھا۔ چاہے اس کام کیلئے اسے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ بلبن اپنے خوفزدہ درباریوں کو دیکھ کر مسکرایا اور بولا جب ہندوستان کی نسلوں کے مستقبل کا سوال ہو تو بلبن کو اپنے بیٹے کی قربانی دینا ہی پڑے گی کیونکہ اس کے بغیر تاتاریوں کی یلغار نہیں رک سکے گی ۔ وہ یہ افورڈ نہیں کر سکتا تھا کہ اپنے ایک بیٹے کو بچاتے ہوئے وہ ہندوستان کے لاکھوں بیٹوں کے سروں کے مینار کھڑے کرا دے۔ب خاموش تھے۔ بلبن نے اپنے بیٹے سے پوچھا کوئی ایسی فرمائش جو وہ اس کے ملتان جانے سے پہلے پوری کر سکتا ہو۔ شہزادہ محمد باپ کے سامنے جھکا اور بولا کہ وہ مشہور شاعر امیر خسرو کو اپنے ساتھ ملتان لے جانا چاہتا تھا کیونکہ شہزادہ محمد اپنے باپ کے برعکس شعر و شاعری ادب و فنون لطیفہ کا بہت دلدادہ تھا۔
ملتان آتے ہی شہزادہ محمد نے فوری طور پر اپنی فوج کی جدید انداز میں تربیت شروع کر دی۔ ملتان کے سرائیکی علاقوں کی صدیوں پر پھیلی مٹھاس، مروت اور پیار نے شہزادے محمد کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس دوران میں بلبن کے حکم پر دریائے سندھ اور دہلی کے درمیان نئے قلعے تعمیرکیے گئے اور پرانوں کی مرمت کا آرڈر دیا گیا تاکہ منگولوں کو ہندوستان میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ فوج کے بہترین دستوں کو ہندوستان کی شمالی سرحدوں پر تعینات کیا گیا۔
آخر وہی کچھ ہوا جس کا خطرہ تھا۔ شہزادے محمد کو اپنے ملتان کے دربار میں خبر ملی کہ منگول آج کے موجودہ صوبہ سرحد کے علاقوں میں داخل ہونے والے تھے۔ شہزادہ محمد اپنے ملتان کے بہادر فوجیوں کے ساتھ وہاں سے نکلا اور منگولوں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ کئی دن تک جنگ ہوتی رہی اور شہزادہ محمد اپنے فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑتا رہا۔ اس جنگ میں وہ شدید زخمی ہوا لیکن اسے اپنے باپ کی عزت کا بہت خیال تھا لہٰذا جب تک منگولوں کو شکست نہیں ہوئی وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے فوجیوں کی ہمت بڑھاتا رہا۔ جب وہ اپنے خیمے میں آخری سانسیں لے رہا تھا تو اسے یہ خبر دی گئی کہ منگولوں کو شکست ہو گئی تھی۔ شہزادہ محمد مسکرایا اور ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گیا۔ جب یہ خبر بلبن تک پہنچی تو وہ اس صدمے سے کبھی نہ نکل سکا کیونکہ شہزادہ محمد اس کا سب سے زیادہ لاڈلا بیٹا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کی قربانی دیکر تاتاریوں کو ہندوستان کے لوگوں کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے سے روک لیا تھا۔
امیر خسرو نے اپنے شہزادے محمد کی بہادری پر بہت شعر و شاعری کی۔ سرائیکی علاقوں میں آج بھی ان کی فوک داستانوں میں شہزادہ محمد ایک شہید کے طور پر ایک ایسا ہیرو سمجھا جاتا ہے جس نے اپنی جان کی قربانی دیکر ان علاقوں کو تاتاریوں سے بچا لیا تھا۔ شہزادہ محمد نے اپنی جان دیکر ہندوستان کو تو بچا لیا تھا لیکن بلبن کی جان اپنے اس بیٹے میں تھی اور وہ اسی غم میں کچھ دن بعد فوت ہو گیا۔ مرنے سے پہلے بلبن نے تاریخ میں ایک بات ثابت کی کہ جب ملک بہت بڑے بحرانوں، اندرونی خلفشار، بغاوتوں، وار لارڈز کے حملوں کا شکار ہونے والے ہوں تو پھر اپنے سب سے پیارے بیٹے کی قربانی دیئے بغیر بات نہیں بنتی۔
بلبن اور شہزادے محمد کی یہ کہانی ختم ہو گئی ہے۔ آج آٹھ سو سال بعد وہی خطہ ایک بار پھر اسی طرح کی تباہی اور بربادی کا شکار ہو رہا ہے۔ ہر طرف مذہب کے نام پر نئے وار لارڈز پیدا ہو چکے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ آج ہمارے ہاں بلبن جیسا ایک حکمران بھی نہیں ہے جو اپنے بچوں کومغربی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے بجائے محاذ جنگ پر بھیج کر پاکستان کو بچائے۔ ملک اور بیٹوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور بلبن نے ہمارے حکمرانوں کے برعکس اپنے بیٹے پر ہندوستان کو ترجیح دی تھی۔
ہے کوئی جو آج بادشاہ بلبن کی تاریخ دہرائے اور شہزادہ محمد جیسا نیا فوک داستانوں کیلے ہیرو پیدا کرے!!
تازہ ترین