• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوابی، مردان اور دھوپ سے جلتے چہرے ,,,,کشور ناہید

میں نے تو صوابی اورمردان میں دھوپ سے تپے خیمے دیکھے مگر بہاول نگر میں بیٹھے سلیم شہزاد نے محسوس کرتے ہوئے کہا ”قسم ہے خون اگلتی بوڑھی ہڈیوں کی، جن کی آنکھوں سے پیلاہٹ جھلکتی ہے، زرد دنوں کی روشنی، موت کی سیڑھیوں پر زندگی تھوکتی ہے کہ ان کے ہونٹوں کی زردی تڑپے“۔میں نے دیہاتوں میں بڑے بڑے حجرے نہیں دیکھے تھے۔ یہ بھی نہیں دیکھا تھاکہ لکڑیاں کاٹ کے خود ہی بکری ذبح کرکے، لوگ مل کر خودہی کہیں شوربہ گوشت پکا رہے ہیں،کہیں چاول کی دیگ اتر رہی ہے اور کہیں حجرے میں ٹھہرے خاندان روٹی اس لئے نہیں پکا سکتے، نان آنے کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس چولہا اور توا نہیں ہے۔ ورنہ سوکھا راشن ان کے پاس پہنچ چکا تھا۔ پانی توسارے بچے خود ہی بھر بھر کر لا رہے تھے۔ پنکھے کی روایت ان حجروں میں ہے ہی نہیں۔ لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے آنے والے دکھی لوگوں کے لئے جس طرح کھولے تھے، جیسے لمبے چوڑے صحن میں دھوپ کی تمازت سہتے ہوئے لوگ زمین پر بیٹھے تھے۔
مجھے اطلاع مل چکی تھی کہ ان دیہاتوں میں کمیونٹی تنور کی روایت نہیں ہے ۔ اس لئے توے اور لوہے کے چولہے ساتھ لے کر جانا چاہئے مگر شاباش ہے صوابی کے نوجوان ناظم کو، کہ اس نے اپنے آپ ہی اپنے علاقے میں ٹھہرے ہوئے سارے ہجرت زدہ خاندانوں کے لئے جس قدر بھی سامان اور خوراک کی ضرورت تھی، اس کا خوشدلی سے اہتمام ہی نہیں کیا ہوا تھا بلکہ نئے آنے والوں کو قریبی دیہاتوں کی جانب روانہ کرتے ہوئے یہ بھی بتارہا تھا کہ آپ لوگ فلاں فلاں دیہاتوں کی جانب جائیں۔ وہاں کے نمبردار اور خانزادہ کو مطلع بھی کر رہا تھا کہ مہمانوں کے آنے کے لئے ، سازوسامان اکٹھا کریں مگر قافلے تھے کہ اس طرح لٹے پٹے چلے آرہے تھے جیسے تقسیم کے وقت لوگ پاکستان آرہے تھے۔ کوئی بھی چہرہ ہنستا مسکراتا نہیں تھا۔ اتنا تھوڑا سامان ظاہر ہے کہ قیامت کے منظر میں جو کچھ بھی لے جاؤ وہ کم ہے۔ سرکار کے لوگ چونکہ رجسٹریشن کے بعد ہی راشن یا پیسے دینے کی شرط عائد کئے ہوئے تھے۔ لوگ دھوپ میں کھڑے ہونے سے بیزار ہوکر بھی کھڑے تھے کہ دور دور تک کوئی سایہ نہیں تھا۔
کمیون یا کمیونٹی کے طور پر رہنے کا تصور، ہمارے کلچر میں اس وقت آتا ہے جب کوئی مصیبت سر پہ آپڑتی ہے۔ اتنے معصوم اور بھولے لوگ کہ خفا تھے تو اپنی قسمت سے۔ اپنی افواج سے ناراض نہیں تھے۔ البتہ طالبان کے بارے میں ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ کیا وہ سچے تھے، پر کس لئے، ان کے بقول سارے مسلمانوں کو پھر مسلمان بنانے کی تحریک سے کیا مراد ہے۔ بے بسی تو دیکھنے والی تھی ان نوجوان بچے، بچیوں کی جو تعلیم حاصل کررہے تھے۔ ان کے امتحان ہونے والے تھے۔ ان کا پورا سال ضائع ہوگیا۔ پورے سال کی محنت اکارت گئی۔ وہ سب سے ناراض تھے، فوج سے بھی کہ وہ بے تحاشہ گولے برسا رہی تھی۔ طالبان سے جنہوں نے ان کے پرسکون خطے کو برباد کیا۔ امریکہ سے بھی کہ ڈرون حملوں کے باعث، یہ طالبان اور شیر ہوکر من مانی کررہے تھے۔ علاوہ ازیں صوبائی حکومت سے توبے حد نالاں تھے۔ وہ کہہ رہے تھے ، ہم نے ووٹ اس لئے تو نہیں دیئے تھے کہ یہ لوگ نظام عدل کے نام پر ہمیں تباہ کردیں۔
ہر دیہات کہ جہاں میں گئی وہ لوگ دوائیاں مانگتے تھے۔ میں ڈسپرین کے سیکڑوں پتے لے گئی تھی۔ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ سب کہاں چھینے گئے۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر خواتین کیمپوں سے باہر ہی نہیں نکل سکتی ہیں۔ مرد تو آزاد ہیں جہاں چاہیں آجاسکتے ہیں۔ عورتیں نہ صرف پردہ دار ہیں بلکہ ریشمی کپڑے پہنے ہوئے ہیں جس کے باعث یہ 40 ڈگری کی گرمی میں، بالکل بے ہوش ہونے والی کیفیت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ یوں تو بین الاقوامی مدد کرنے والے ادارے باتھ روم بنارہے ہیں ڈاکٹروں اور دوائیوں کا اہتمام کررہے ہیں مگر پینے کے پانی کی سہولت بہت کم جگہوں پر موجود ہے۔ جن دیہاتوں میں علاقائی لوگ میزبان ہیں وہ تو سب کھیت کھلیان بھول کر، بے گھر مہمانوں کے لئے ہینڈ پمپ اور کنوؤں سے پانی نکال کر پلارہے ہیں۔ سب لوگ ایک خاندان کی طرح ہیں مگر کیمپوں کی حالت ابتر ہے۔ بیماروں کے لئے کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے اور پھر عورتوں کے لئے بھی ضروری چیزیں فراہم نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ساری کپڑوں کی فیکٹریاں کیا کررہی ہیں۔ وہ ٹرک بھر کے تھان کپڑوں کے بھیجیں۔ ساتھ میں درزی بھی مشینوں کے ساتھ بھجوائیں۔ مقامی درزی بھی مل سکیں گے۔ سارے پاکستانی ایک ایک جوڑا کاٹن کا دے دیں تو ہر ایک ہجرت زدہ شخص کے پاس کم از کم دو جوڑے تو موجود ہوں گے۔ پرانے کپڑے نہیں چاہئیں جیسا کہ لوگوں نے زلزلے کے دوران دیئے تھے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں۔ ان کے نام رجسٹر نہیں ہوسکتے پھر خوراک کیسے ملے۔ ان سارے مسائل کو معلوم کرنے کے لئے میں صوابی کیوں گئی۔ کیا کسی وزیر یا صحافی کے ساتھ گئی اور واپسی پر مردان کا رخ بھی کیا۔ دراصل میری ایک دوست جو کہ بنت مالا کنڈ کے نام سے بٹ خیلہ میں این جی او چلاتی تھی وہ مع اپنے قبیلے کے یہاں شفٹ ہی نہیں ہوئی بلکہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس نے فون کرکے مجھے ضروریات کا بتایا تھا۔میں اپنی اوقات میں جو کچھ کرسکتی تھی وہ انتظام کرکے، اگلے دن ہی روانہ ہوئی کہ واپس آکر احوال بھی لکھوں اور دوستوں کو بتاؤں کہ ابھی کتنے مراحل اور کتنے مسائل ہیں، جن کو حل کرنا ضروری ہے۔فوجی ایکشن بہت لمبا نہیں چلنا چاہئے۔ زیادہ تر لوگ یہی چاہتے ہیں کہ وہ واپس اپنی زمینوں پر جائیں، اپنے گھروں کو جائیں کہ جو سونا یا پیسہ تھا وہ تو بس والوں کو کرائے کی شکل میں دے کر اور جان بچا کر یہاں آگئے ہیں۔ فوجی ایکشن لمبا ہوا تو خوف اور ڈر یہ ہے کہ لوگ فوج کے بارے میں بھی اچھے جذبات نہیں رکھیں گے۔ دنیا بھر سے امداد، اس لئے نہیں مل رہی کہ آزاد کشمیر کی طرح بے گھری لوگوں کا مقدر رہے۔ اس لئے مل رہی ہے کہ لوگوں کو واپس ان کے گھروں میں آباد کیا جائے اور سارے پاکستانی اپنے خوبصورت سواتی شہروں میں سیاحت کے لئے آسکیں۔طالبان کی سرگرمیاں اب بنوں تک پھیل گئی ہیں۔ فوج کو ہر جانب سے ان ظالموں کوگھیر کر، مکمل خاتمے کا منصوبہ بنانا چاہئے۔ ورنہ گوریلا جنگ تو سالہاسال چل سکتی ہے۔ ہماری قوم اور ہماری معیشت اس اندوہناک مستقبل کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔
تازہ ترین