• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ: برطرفی کے آمرانہ قانون کی تلوار لاکھوں ملازمین پر لٹک رہی ہے

کراچی (امداد سومرو)وفاق اور تین صوبوں کی جانب سے آمرانہ اور مزدور مخالف قانون کے خاتمے کے باوجود سندھ حکومت کے دس لاکھ ملازمین کے سروں پر ملازمت سے برطرفی کے آرڈیننس 2000 کی تلوار لٹک رہی ہے۔ سندھ اسمبلی کے دوسرا دور تقریبا ختم ہونے کے قریب ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتیں خاص طورپر پیپلز پارٹی جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے آمرانہ قانون کو ختم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس نمائندے نے سرکاری اور مختلف سیاسی جماعتوں کا موقف جاننے کےلئے ایک تفصلی ای میل اور ٹیکسٹ پیغام سندھ اسمبلی میں مختلف سیاسی جماعتوں کو بھیجا لیکن کسی رکن نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے ہیر سوہو، ایم ایل (ایف) کے شہریار مہر، پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم پی اے عاقب جتوئی، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے رکن ملک اسد اور فریال تالپور کو ای میل بھیجی گئی تھی۔ دوسری جانب نثار کھوڑو، جام خان شورو، ضیا لنجاراور نصرت سحر عباسی کو تفصیلی ٹیکسٹ پیغام بھیجا گیا تھا لیکن اس خبر کے فائل کیے جانے تک کسی نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ تاہم صوبے کے چیف لا آفیسر ایڈوکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر گھمرو نے دی نیوز کو بتایا کہ مزدور مخالف یہ قانون زیر غور ہے اور سندھ سے جلد ختم کر دیا جائے گا۔سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 17 فروری 2011 کو اس وقت کے وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ نے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں صوبائی وزیرتعلیم پیر مظہر الحق، اس وقت کے وزیر قانون ایاز سومرو اور اس وقت کے متحدہ قومی موومنٹ کے اپوزیشن لیڈر سیدسردار احمد شامل تھے، جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ آیا آر ایس او 2000 کو ختم کیا جاسکتا ہے یا نہیں، جس طرح وفاق اور تین صوبوں نےکیا ہے اور یہ بھی جائزہ لیا جانا تھا کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے آر ایس او 2000 کے تحت رجسٹرڈ ہونے والے کیسز تین سال گزرنے کے باوجود بھی نمٹائے نہیں جاسکے۔ ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے دوران زیادہ تر ملازمین کو آر ایس او 2000 کے ذریعے برطرف کیا گیا اور ان ملازمین کا تعلق سندھ کے محکمہ تعلیم سے تھا جس کے سربراہ سینئر مسٹر پیر مظہر الحق تھے، جو کمیٹی کے سربراہ بھی تھے اور قانون کو ختم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ سندھ حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ صوبائی حکومت اپنے متعلقہ محکموں کے افسران کو اپنے احکامات ماننے پر مجبور کرتی ہے، سندھ حکومت میں زیادہ تر وزرا اور اعلی بیورکریٹس ملازمت سے برطرفی کے آرڈیننس 2000 کو ختم کرنے میں ہچکچا رہے ہیں۔
تازہ ترین