• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوستو! اس مرتبہ ہم گھومتے گھومتے نیشنل کالج آف آرٹس (میو ا سکول آف آرٹس) جا پہنچے۔ فنون لطیفہ کا یہ ادارہ انگریزوںنے 1875میں بنایا۔ اس ادارے نے آرٹ کی جو خدمت کی ہے۔ وہ تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ 1958میں اس کا نام نیشنل کالج آف آرٹس کر دیا گیا۔ بھائی رام سنگھ اس کے پہلے ہندوستانی پرنسپل تھے جبکہ پہلے پرنسپل لارڈ کیپلنگ تھے۔ پہلے مسلمان پرنسپل شاکر علی تھے۔ بھائی رام سنگھ نے میو اسکول آف آرٹس کی عمارت تعمیر کرائی۔ جی پی او، ایچیسن کالج کی خوبصورت عمارتیں بھی بھائی رام سنگھ نے تعمیر کرائیں۔ فنون لطیفہ سے ہمیں تو بچپن سے لگائو ہے۔
ہمارے خاندان کے ایک آرٹسٹ احمد سعید ناگی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قائداعظم ؒنے ان کے سامنے بیٹھ کر اپنا پوٹریٹ بنوایا تھا۔ جو جنرل ضیا الحق کی حکومت تک آفیشل فو ٹو رہا۔ تمام سرکاری عمارتوںاور سفارت خانوں میں لگا دیا۔ پھر ضیا الحق نے سوٹ اور ٹائی کی جگہ اچکن والی تصویر سرکاری قرار دے دی۔
خیر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ اس وقت اس ادارے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری ہیں۔ جو کہ خود بھی بڑے اچھے آرٹسٹ ہیں۔ بڑے نفیس انسان ہیں۔ گریٹر اقبال پارک میں اس کالج کے اسٹوڈنٹس اور اساتذہ کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔آج ڈاکٹر جعفری بڑے دکھی انداز میں بولے بلکہ پھٹ پڑے اور بتایا کہ پچھلے ساڑھے تین برس سے اس ادارے کو یونیورسٹی بنانے کیلئے بھاگ دوڈ کر رہا ہوں۔ تیس سال سے اس ادارے میں کام کر رہا ہوں ۔ مگر کوئی سرکاری ادارہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہا۔ کبھی کوئی رکاوٹ کبھی کوئی مسئلہ پیدا کر دیتے ہیں۔ این سی اے کوئی پرائیویٹ ادارہ نہیں سرکاری ادارہ ہے۔ اس کا ایک کیمپس راولپنڈی میں بھی ہے اور اس کو اگر یونیورسٹی کا چارٹر مل جاتا ہے تو اس سے فائدہ کس کو ہوگا؟ اسٹوڈنٹس اور اساتذہ اور ریسرچ بھی ہو گی۔ پھر اس ادارے کا نام مزید بین الاقوامی سطح پر نمایاں ہوگا۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ یہ ادارہ پہلے ہی ڈگری ایوارڈنگ ہے۔ یعنی اپنے اسٹوڈنٹس کو خود ڈگری دیتا ہے۔ اب اس کو یونیورسٹی کا درجہ دینے میں کیا قباحت ہے؟ کس کس محکمے سے اپنا کیس Vet نہیں کرایا۔ وہ پوری ایک تاریخ ہے۔ اس کام میں رکاوٹ وہ شخص ڈال رہا ہے۔ جو کبھی بھول کر بھی این سی اے کے قریب سے نہیں گزرا۔ اس کو کیا پتہ کہ اس ادارے کی اہمیت کیا ہے ؟کیا کیا ہستیاں اس ادارے سے وابستہ رہیں۔ عبدالرحمن چغتائی، شاکر علی، استاد اللہ بخش ، صادقین، کولن ڈیوڈ، سعید اختر، استاد بشیر (نئی نسل کے نامور استاد)ملک کے معروف ماہر تعمیرات نیئر علی دادا بھی بطوروزیٹنگ استاد کے وابستہ ہیں۔ دلچسپ حقیقت ہے کہ نواز شریف اپنے پہلے کسی دور میں بطور وزیراعظم اس تاریخی کالج کے کانووکیشن میں آئے تھے اور ہم بھی وہاںموجود تھے۔ وہاںانہوں نے اسے ڈگری ایوارڈنگ کا درجہ دینے کیساتھ ساتھ فنون لطیفہ سےاپنی گہری دلچسپی کا اظہار بھی کیا تھا۔ مگر عملی طور پر اس ادارے کیلئے ن لیگ کی حکومت نے کیا کیا؟ اب تو مرکز اور صوبے دونوں میں ن لیگ کی حکومت ہے۔ پھراٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس آ گیا ہے۔ پھر دیر کس بات کی؟
حالانکہ حال ہی میں کالج کے ڈگری شو کے موقع پر وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر آصف کرمانی نے بھی اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے کے حوالےسے وعدہ کیا تھا اور انہوں نے پرنسپل کو بتایا تھا کہ وزیراعظم ملک میں آرٹ کی ترقی و ترویج کی خواہش رکھتے ہیں۔ مگر تا حال کچھ نہیں ہوا۔ دوسری طرف اسلام آباد میں کلچرل کمپلیکس ایک مدت سے بند پڑا ہے۔ اس کے اندر سنیما، تھیٹر اور بیشمار کمرے اور عمارتیں ہیں۔ اگر وہ این سی اے کو مل جائیں تو آرٹ کے فروغ کیلئے اس ادارے کے لوگ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ مگر یہ ادارہ ان کو کون دے گا اور کیوں دے گا؟ ویسے بھی بعض معزز ممبران اسمبلی آرٹ کے شعبہ سے وابستہ لوگوں کو اچھا نہیں سمجھتے کیونکہ ہماری حکومت کی ترجیحات میں صرف اور صرف اورنج ٹرین ہے۔ جس کا بجٹ اب چارسو ارب تک پہنچ چکا ہے۔ لاہور جیسے تاریخی شہر کا حلیہ ، نقش و نگار، ثقافتی اور تاریخی تعمیراتی اور حسن تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ ارے بابا لاہور میں انگریزوں نے ریلوے لائن کا پورا جال بچھایا ہوا تھا۔ ان چار سو ارب کا چوتھا حصہ بھی لگا دیتے تو لاہور کے شہریوں کو بہترین ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر آ جاتی۔
اس ادارے میں ملکہ الزبتھ، لیڈی ڈیانا، شاہ ایران ، اردن کی ملکہ آ چکی ہیں۔ باہر سے آنے والوںکو بتایا ضرور جاتا ہے کہ ان کے ہاں آرٹ کی تعلیم و تربیت کا بہترین ادارہ ہے۔ مگر اس ادارے کیلئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا اور ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ حکومت آرٹ کے فروغ کیلئے بالکل سنجیدہ نہیں۔ این سی اے کو صرف استعمال کیا جاتا ہے کئی ہفتوں سے اس ادارے کو یونیورسٹی بنانے کی سمری وزیراعظم ہائوس کا ایک اعلیٰ افسر دبا کر بیٹھا ہوا ہے۔ اب خدا جانے اس افسر کے ذہن میں کیا ہے؟ اور معاملہ کیا ہے؟
لوجی پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ والوں نے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو ایک نئی لائن دے دی کہ پنجاب کے 36اضلاع میں ہیپاٹائٹس فلٹر کلینکس قائم ہوں گے۔ ہر مریض کا علاج فری ہو گا۔ پاکستان میں بعض ماہرین کے بقول ہر چوتھا فرد ہیپاٹائٹس بی /سی میں مبتلا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سو فیصد علاج مفت ہو گا۔ جو ہمارےنزدیک ممکن نہیں کیا آ ج تک آپ سو فیصد دل کے مریضوں کو علاج مفت فراہم کر سکے؟سوال یہ ہے کہ پنجاب میں اس وقت کئی سرکاری ٹیچنگ اسپتالوں میں جگر اور گردوں کے شعبے ہیں ۔ کیا ان سے آپ فلٹر کلینک کا کام نہیں لے سکتے؟ پھر ہر ضلع اور تحصیل کے اسپتالوں میں بھی جگر اور گردوں کی علاج گاہیں ہیں، گو کہ وہاں حالات کچھ اچھے نہیں۔ کیا ان کو فلٹر کلینک کے طور پر استعمال نہیں کر سکتے؟ سننے میں آیا ہے کہ کئی ارب سے 36 اضلاع میں یہ فلٹر کلینکس قائم کئے جائیں گے۔ پہلےہی 20ارب روپے سے پی کے ایل آئی بنا کر پتہ نہیں کس کس کو نوازا جا رہا ہے اور اب جس شخص کے مشورے پر فلٹر کلینکس قائم کئے جا رہے ہیں۔ اس کی بھی کہانی کسی روز سامنے آجائے گی۔ یہ کلینکس بھی، موبائل ہیلتھ یونٹ، سستی روٹی ، دانش ا سکول، پنک بسیں، گرین بس اور پنک رکشے کی طرح ثابت ہوں گی۔
خدارا میاں صاحب اب تو لوگوں کو خوش کن نعروں سے نجات دلا دیں۔ ہم بات کرتے ہیں تو آپ برا منا جاتے ہیں۔ کہا گیا تھا کہ ٹیچنگ اسپتالوں کے سربراہوں کو اپنے اسپتالوں کے اندر پرائیویٹ پریکٹس کرنا ہوگی۔ تب وہ کسی ٹیچنگ اسپتال / میڈیکل کالج کے سربراہ بنیں گے۔ اس وقت کئی میڈیکل کالجوں کے سربراہ بدستور پرائیویٹ پریکٹس، پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینکوں میں کام کر رہے ہیں۔ یہ قانون تو آپ نافذ نہیں کر ا سکے۔
جناب پنجاب بارہ کروڑ افراد کا صوبہ ہے۔ اگر یہاں دس لاکھ افراد کو بھی ہیپاٹائٹس بی/سی ہوا۔ تو آپ کے فلٹر کلینکس اور پی کے ایل آئی سو فیصد علاج کی سہولتیں فراہم کرنے سے قاصر رہیں گے۔
ایک سابق وزیراعظم کے بھائی نے جس طرح ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے نام پر اربوں روپے کھا لئے تھے آج تک اس کا حساب نہ ہو سکا۔ پیسہ اور قرضہ بہت ہے۔ مگر دونوں کا ضیاع بھی آپ کی حکومت بڑی مہارت سے کرتی ہے۔
ابھی آپ ہیپاٹائٹس فلٹر کلینکس بنائیں گے۔ پھر کڈنی فلٹر کلینکس بنائیں گے۔ پھر ٹی بی فلٹر کلینکس بنائیں گے۔ اگر یہ فلٹر کلینکس صرف 36مریض روزانہ لاہور پی کے ایل آئی میں بھیجیں گے تو ایک ماہ میں 1080مریض صرف جگر کے آ جائیں گے جبکہ آپ کا پی کے ایل آئی صرف چار سو بستروں کا ہے ۔ اب گردے کے مریض کہاں جائیں گے؟فنی طور پر اس منصوبے میں بیشمار خرابیاں اور انتہائی ناقص منصوبہ بندی ہے۔



.
تازہ ترین