سکھر (بیورو رپورٹ) پیپلزپارٹی ملک بھر میں بجلی کی غیر اعلانیہ، طویل بندش خاص طور پر سندھ میں بجلی کے بدترین بحران کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہی ہے تو دوسری جانب حکومت سندھ کے ماتحت ادارے ہیں جو بجلی ضائع کر کے نہ صرف لوڈشیڈنگ میں اضافہ کررہے ہیں بلکہ اپنے اداروں کو بھی بجلی کے بلوں کی مد میں سیپکو کا مقروض بنانے میں مصروف ہیں، شہر کی مختلف شاہراہوں پر اسٹریٹ لائٹس دن کے وقت بھی روشن رہتی ہیں جس کی نشاندہی مسلسل کی جارہی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر کوئی بھی اس کا نوٹس لینے کو تیار نہیں۔ میونسپل کارپوریشن کے افسران کی غفلت کا یہ عالم ہے کہ وہ سیپکو کی کروڑوں روپے کی نادہند ہے اس کے باوجود رمضان المبارک میں بھی شہر کے اکثریتی علاقوں میں دن کے وقت اسٹریٹ لائٹس روشن رہتی ہیں جبکہ مختلف علاقوں میں جو سولر انرجی پلانٹ لگائے گئے ہیں ان کی لائٹس بھی دن بھر جلتی رہتی ہیں۔ صوبائی حکومت، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ ہوں، منتخب اراکین اسمبلی ہوں، میئر سکھر ہوں، کمشنر سکھر یا دیگر انتظامی افسران کسی نے تاحال اس کا نوٹس نہیں لیا۔ پیپلزپارٹی بجلی کے بحران کے خلاف دھرنے تو دے رہی ہے اور عوام کی آواز بن کر بجلی کے بحران کے خلاف سراپا احتجاج ہے جبکہ میونسپل کارپوریشن طویل عرصے سے بجلی ضائع کر کے ادارے کو مسلسل سیپکو کا مقروض بنا رہی ہے اس کے خلاف کوئی نوٹس لینے کو تیار نہیں، حیرت انگیز طور پر بلدیات نظام بحال ہوچکا ہے اور میئر سکھر بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ اور ان کی ٹیم شہر میں صفائی ستھرائی سمیت دیگر عوامی مسائل کو حل کرنے کے دعوے کرتے دکھائی دیتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے ادارے میونسپل کارپوریشن کو ہی تاحال بہتر نہیں بنا سکے ہیں اور دن کے وقت شہر کی اکثریتی شاہراہوں پر اسٹریٹ لائٹس اور سولر انرجی کے ذریعے چلنے والی لائٹس بند نہیں کی جاتیں جس سے بجلی ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ ادارے کو ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔گھنٹہ گھر چوک خاص طور پر میونسپل کارپوریشن سے سوگز کے فاصلے پر فوارہ چوک سمیت شہر کی مختلف شاہراہوں پر دن کے وقت اسٹریٹ لائٹس روشن ہیں۔ سکھر کے سیاسی، سماجی، عوامی، تجارتی، مذہبی حلقوں نے دن کے وقت اسٹریٹ لائٹس جلنے کی سخت مذمت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی وزیر بلدیات اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ سے مطالبہ کیا ہے کہ میونسپل کارپوریشن سکھر کے کمشنر سمیت دیگر متعلقہ افسران کی غفلت اور کوتاہی کا نوٹس لیا جائے۔