بہت آزمائشوں سے گزرنے کے بعد قدرت سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پر بہت مہربان ہے ۔پہلے ان کی نااہلی کالعدم ہوئی پھر 29سال کی سزا ختم ہوئی ہے ۔ تمام کیس ختم ہوئے اب ان کے دل کی مراد یعنی پرویز مشرف کا مواخذہ ہوتا نظر آ رہا ہے جس کیلئے میاں صاحب جلا وطنی ختم کر کے پاکستان لوٹے تھے تو بار بار اس کا اعادہ کرتے تھے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے آخر کار ان کو سپریم کورٹ میں حاضری کا نوٹس جاری کر دیا ہے ۔ آخری اطلاع آنے تک ان کی رہائش گاہ چک شہزاد فارم ہاؤس کے چوکیدار نے نوٹس لینے سے انکار کر دیا ہے ۔ اگر پرویز مشرف سپریم کورٹ میں حاضر نہیں ہوتے تو ایک نئی بحث چھڑجائے گی کہ عدالت ِ عالیہ ان کی غیر حاضری میں کیس چلا سکتی ہے یا نہیں ۔پاکستان کی عدلیہ نے پہلی مرتبہ کسی آمر کو عدالت میں طلب تو کیا ۔ اگر ایوب خان اور یحییٰ خان کو اس وقت کی عدلیہ طلب کر کے مقدمہ چلاتی تو کم از کم ضیاء الحق جمہوری حکومت کو ختم نہیں کر سکتے تھے ، پھر 1988ء سے 1998ء تک جمہوری حکومتیں ٹوٹتی اور بنتی رہیں پھر پرویز مشرف برسر اقتدار آ گئے ۔ انہوں نے پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) تو ان کی ہدف تھیں ۔ سب معرکوں میں وہ کامیاب رہے قدرت نے چیف جسٹس کی شکل میں ایک ہی سال میں سیاست کا ایسا رُخ بدلہ کہ وہ خود اپنے جال میں پھنس گئے اور چیف جسٹس کے معاملے نے اتنا طول پکڑا جو اِن کا اقتدار لے ڈوبا اور ان کو پی پی پی کو ہی اقتدار دینا پڑا ۔
آج پھر یہ باز گشت سنائی دے رہی ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت حالات نہیں سنبھال سکی ہے لہٰذا پرویز مشرف کو دوبارہ زحمت دی جائے اور وہ آ کر دوبارہ اقتدار سنبھال لیں کہ اچانک سپریم کورٹ کے بہت بڑی بنچ نے یہ اقدام کر کے کم از کم ان کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کا دروازہ بند کر دیا ہے دوسری اہم بات خود موجودہ حکومت اور اٹارنی جنرل نے ان کا کیس لڑنے سے بھی انکار کر دیا ہے حتیٰ کہ مسلم لیگ (ق) والے جو ان سے اجنبیوں جیسا سلوک کر رہے ہیں وکلاء کا جو ش و خروش عروج پر ہے ۔ ان کی ہی کامیاب تحریک نے ان کو نہ صرف اقتدار سے محروم کیا بلکہ غالباً اب ان کے پاکستان واپس آنے میں وہ سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوں گے ۔سیاستداں تو ان کے مواخذے پر بہت خوش ہیں البتہ عوام کا ابھی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ۔دینی حلقے البتہ ان کو سانحہ لال مسجد کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جس میں ناحق طلباء اور طالبات مارے گئے اگرچہ بہت سے ابن الوقت وکلاء جو ان کے دور میں حکومتی تنخواہ دار تھے پھران کا دفاع کریں گے ۔مگر مجھے پہلی دفعہ ایسا لگ رہا ہے کہ عدلیہ اپنے اوپر لگے پرانے داغ دھو کر نئی تاریخ رقم کرے گی جو ہمارے ملک کی جمہوریت کو مستقبل میں تقویت دینے کا باعث بنے گی اور ملک میں مارشل لا لگانے کی حوصلہ شکنی ہو گی ۔اگر کڑی سزا ہو گئی تو پھر کسی کو بھی آئندہ ہمت نہیں ہو سکے گی مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کسی بڑے آدمی پر ہاتھ ڈالا جائے تو بہت سے غیبی ہاتھ سامنے آ جاتے ہیں کبھی امریکہ بھی مداخلت کرتا ہے مگر اس مرتبہ سب سے پہلے امریکی صدر کے ایلچی رچرڈ ہالبروک کا وضاحتی بیان آ چکا ہے جس میں انہوں نے پرویز مشرف کے دفاع نہ کرنے کا بیان جاری کر دیا ہے اس سے ہمارے سیاستدانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں ۔یہ وہی امریکہ ہے جس کی ایک آواز پر پرویزمشرف نے لبیک کہا اور پوری قوم کو دہشت گرد کہلوا دیا ۔پرویز مشرف اِن دنوں خوب سیر سپاٹے کر رہے تھے وہ سمجھ رہے تھے کہ جب ان کو فوجی پروٹوکول دے کر رخصت کیا گیا تو اس کا مقصد یہ سمجھا گیا تھا کہ ان کے تمام کیس ختم ہو چکے ہیں۔ قدرت کا تماشا دیکھئے کہ دوسروں کو عام معافی دینے والا آج خود عام معافی کا طلبگار ہو رہا ہے ۔
کل جس چیف جسٹس کو بلا کر دھمکا رہے تھے آج وہی ان کی قسمت کا فیصلہ کر رہا ہے ۔ آج وہ بالکل تنہا ہو چکے ہیں ۔صدر زرداری کے ترجمان کا بھی بیان سامنے آ چکا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ حکومت ان کا دفاع نہیں کرے گی ۔خدا کا شکر ہے کہ آج عدلیہ آزاد ہے ، میڈیا چوکس ہے اب شاید ہی کوئی ایسی غلطی سابق صدر کی حمایت یا دفاع کرنے کی کوشش کرے ۔جب ان پر مقدمہ چلے گا تو پوری دنیا میں تشہیر ہو گی جس سے پاکستان میں جمہوریت کو فروغ ضرور ملے گا اورپاکستان پر لگا ہوا آمروں کا لیبل بھی اُتر جائے گا ۔