پاکستان ا ور پوری دنیا میں پچھلے ہفتے کی اہم خبر یہ رہی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو ان کے3نومبر کے اقدامات کے پس منظر میں طلب کرلیا ہے۔ اس سے پہلے 1972ء میں سابق صدر جنرل(ر) یحییٰ خان اور پھر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی سپریم کورٹ طلب کرچکی ہے۔ ان دونوں شخصیات کی نسبت سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں ابھی تک امریکہ، یورپ اور حتی کہ سعودی عرب کی حمایت بھی حاصل ہے، گو کہ امریکی صدر باراک اوباما کے خصوصی نمائندہ ہالبروک کی رائے اس سے قدرے مختلف ہے، بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری پر مشتمل چودہ رکنی بینچ نے سابق صدر مشرف کو طلب کرکے صدر، وزیر اعظم ، آرمی چیف سمیت پاکستان کی تمام مقتدر شخصیات کو یہ پیغام دیا ہے کہ سپریم کورٹ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کسی کو بھی معقول بنیاد پر طلب کرسکتی ہے۔ اس لئے پاکستان کے اندر اور باہر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری ا ور تجارت کرنے والے حلقوں کی طرف سے اس اقدام کو سراہا جارہا ہے اور یہ رائے دی جارہی ہے کہ اس سے پاکستان میں احتساب کا عمل آگے بڑھے گا۔ سرمایہ کار ملکی ہو یا غیر ملکی سب مطمئن ہوں گے کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے۔ ویسے بھی جس ملک میں عدلیہ آزاد ہوتی ہے اور قومی مفادات کو تمام چیزوں پر فوقیت دیتی ہے وہاں عوام سے بھی زیادہ سرمایہ کار،بنکار اور ملکی نظام چلانے والے مطمئن ہوتے ہیں۔ عوامی حلقوں میں بھی اس حوالے سے عدلیہ کے امیج میں اضافہ ہوتا ہے ،کیونکہ صنعتی و تجارتی حلقوں کی طرف سے کسی خوف کے بغیر سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیوں سے پورے معاشرے پر صحت مند اثر پڑتا ہے۔
آج کل عدلیہ کی بحالی کے بعد سے اس پس منظر میں خاصے مثبت سگنل مل رہے ہیں۔ کاروباری حلقوں کی رائے ہے کہ پاکستان میں گڈ گورنس کی بنیاد پر اگر ہنگامی بنیادوں پر امن و امان کی صورتحال اور بجلی کا بحران حل ہوجائے تو اس سے عدلیہ کی آزادی کے مقاصد کو مزیدتقویت مل سکتی ہے۔ عدلیہ کی آزادی اس وقت واقعی نظر آرہی ہے۔ عدالتوں میں چاہے وہ چھوٹی ہوں یا بڑی ہر جگہ زیادہ سے زیادہ کیس جلد سے جلد نمٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی جوڈیشنل پالیسی کے تحت عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے لئے یا تو مختلف سطح پر جج صاحبان کی تعداد بڑھانا پڑے گی یا پھر کوئی اور ا قدامات کرنے ہوں گے۔ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کے پاس اس عہدہ پر براجمان رہنے کے لئے خاصا وقت ہے، ویسے بھی اس وقت پوری قوم کی نظر یں بھی ان پر لگی ہوئی ہیں۔ کئی لوگ تو سادگی میں یہاں تک یہ بات کہہ جاتے ہیں کہ انہیں تو صدر پاکستان ہونا چاہئے ا ور یہاں صدارتی نظام یا قومی حکومت کا نظام ہونا چاہئے ،بہرحال ان دنوں سابق صدر پرویز مشرف سپریم کورٹ میں پیش ہونے یا نہ ہونے کے مرحلہ سے دوچار ہیں جبکہ عوام پرامید ہیں کہ عدلیہ کی بحالی اور طاقت کا اصل پیغام یہیں سے ملے گا یعنی سزاوار کو سزا ضرور ملنی چاہئے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ پاکستان بھر میں قبضہ گروپوں اور ان اداروں کے خلاف ضروری کارروائی ہونی چاہئے جس کی وجہ سے شریف لوگ قبضہ گروپوں کے دباؤ میں آجاتے ہیں ، حالانکہ فراڈ ان کے ساتھ کوئی بنک یا ادارہ کرتا ہے لیکن سزا ان بے گناہ افراد کو ملتی ہے جس کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں ہم ذاتی طور پر عدالت عالیہ کے ممنون ہیں کہ عدلیہ کی بحالی کے بعد ہمیں بھی اس طرح کے ایک کیس میں عبوری انصاف ملا ، ورنہ فراڈ کرنے اور قبضہ گروپ ہمارے اپنے گھر پر قبضہ کر چکے ہوتے۔ پہلے عدالتوں میں یہ حال ہوتا تھا کہ اکثر اوقات چھوٹی عدالتوں میں وکلاء ذاتی تعلق اور دباؤ کی بنیاد پر یک طرفہ فیصلے کرالیا کرتے تھے۔ اس طرح کے پریشان کن مرحلہ سے ہم بھی گزر رہے ہیں، ہم نے2003ء میں ساری زندگی کی جمع پونجی سے گھر خریدا، لیکن نیشنل بنک کے فراڈ،انتظامی نالائقی اور چالاکی سے ہم کئی مسائل سے دو چار ہوگئے۔ بنک نے اس گھر پر صرف فوٹو کاپی کے ساتھ کسی پارٹی کو قبضہ دے رکھا تھا لیکن اس کا اندراج کسی بھی جگہ نہیں کرایا تھا۔ قرضہ دینے والے کو بنک کے کاغذوں میں مفرور قرار ظاہر کیا گیا ۔ویسے تو قانون کے تحت بنک نے فوٹو کاپی پر کسی کو بھی قرضہ دے کر عملاً اپنے فراڈ کا اعتراف کرلیا، کیونکہ دنیا کے کسی قانون میں ایسا نہیں ہے، اس کے بعد بنک نے مقامی بنکنگ کورٹ میں اس گھر کے نیلام کا فیصلہ کیاجس کے بعد وہ شخص بھی بھاگ گیا جس نے نیلامی میں گھر خریدنے کی پیشکش کی تھی ۔ اس کے بعد بنکنگ کورٹ نے مزید کسی نیلامی کا پروسیجر اختیار کئے بغیر یہ گھر ایک اور پارٹی کو فروخت کرنے کے احکامات صادر کردئیے۔ اس عدالت میں متعلقہ جج صاحب اکثر مخالف پارٹیوں کے وکلاء کو اپنا ذاتی دوست قرار دیتے رہے۔ بہرحال اس کے بعد ابھی چند ہفتے قبل سپریم کورٹ کے فل بینچ نے اس ساری کارروائی کو معطل کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں جس پر ہم ان کا ذاتی طور پر شکریہ بھی ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
پاکستان میں اس طرح کے ایک دو نہیں ہزاروں کیس ہیں جہاں بنکوں نے فراڈ کے ذریعے اپنے عزیز و اقارب کو پراپرٹی اور قرضے وغیرہ دلائے ہیں ۔ کسی جگہ فوٹو کاپی پر کام چلالیا گیا ہے اور کسی جگہ بے زمین افراد کو قرضے دئیے گئے ہیں۔ اس طرح کئی طرح کی ناانصافیاں عوام سے ہورہی ہیں ۔ مزے چند قبضہ گروپ اور بااثر افر اد کررہے اور سزا شریف خاندانوں کو مل رہی ہے۔پاکستان کے عوام کی اکثریت کی عدالت عالیہ سے استدعا ہے کہ وہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو عدالت کے کٹہرے میں ضرورلائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عام افراد کے ساتھ پراپرٹی کاروبار یا کسی اور شعبہ میں فراڈ یا زیادتی کرنے والوں کے خلاف موٴثر کارروائی کے لئے فوری اقدامات ہونے چاہئیں۔اس سلسلہ میں صرف بنکوں اور بنکاری کی عدالتوں کے وکلاء کی ملی بھگت سے ہونے والے فراڈ کو روک کر اربوں روپے کی لوٹ مار بچائی جاسکتی ہے اور ہزاروں افراد اور خاندانوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے جو انصاف نہ ملنے سے خود کشی تک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے اقدامات کے لئے قوم چیف جسٹس صاحب اور پوری عدالت عالیہ کی طرف دیکھ رہی ہے ۔ قوم بدلتے موسم میں ان سے کئی توقعات کرکے بیٹھی ہے اگر اس ملک میں انصاف اور احتساب کا عمل عملی طور پر شروع ہوجائے تو اس سے معاشی سرگرمیوں پر بڑے صحت مند اور دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ ان اقدامات کے لئے اس سے اچھا وقت اور موسم کوئی نہیں سب کو اچھے اور خوشگوار موسم کا انتظار ہے اس لئے دیر نہیں اس نیک کام میں تیزی دکھائی جائے۔