• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کی جانب سےسال میں کئی عالمی دن منائے جاتے ہیں جو کسی عالمی مسئلےیا واقعہ کی اہمیت کوپوری دنیا میں اجاگر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر انسانی شعور کو اس اعتبار سے بیدار کیا جاتا ہے 8اور 9مئی دودن عالمی سطح پر ایسے ہیں جو دنیا بھر میں دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنی جانوں سے جانے والوں کی یاد میں اور ان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے لئے منائے جاتے ہیں۔یہ دن منانے کا فیصلہ جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے 59سال بعد 22نومبر 2004کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد نمبر59-26 میں کیا۔ آٹھ مئی 1945 کو جرمنی کے ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کی نازی فوجوں نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالے تھے اس جنگ میں پانچ سے سات کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے اس وقت دنیا کی کل آبادی 2ارب 30کروڑ تھی اس میں سے تقریباً 3فیصد افراد یعنی ہر 33افراد میں سے ایک انسان جان سے گیا تھا مرنے والوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اسی فیصد تعداد مردوں کی تھی ہلاک ہونے والوں میں دو کروڑ روسیوں اور ایک کروڑ چینیوں کے علاوہ 38لاکھ ہندوستانی بھی شامل تھے۔ مرنے والے دو کروڑ روسیوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہےکہ ان میں سے تیس فیصد کا تعلق سینٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں سے تھا جو 1990میں آزاد ہوئیں ان میں آذر بائیجان، ازبکستان، کرغیزستان، ترکمانستان، تاجکستان اور قازقستان شامل ہیں جرمنی کے ہلاک ہونے والے فوجیوں اور سویلین کی مجموعی تعداد42لاکھ تھی 23لاکھ جاپانی بھی ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والے برطانوی اور فرانسیسی تناسب کے لحاظ سے جرمنوں اور جاپانیوں سےکہیں کم تھے یورپ میں سب سے زیادہ یعنی 60لاکھ یہودی مارے گئے ایل جے فورمین کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی ایک کروڑ 70لاکھ تھی کل یہودی آبادی کا35.3% ایڈولف ہٹلر نے ہلاک کیا 2009میں دنیا کی کل آبادی چھ ارب 70کروڑ تھی گویا 70برسوں میں مجموعی آبادی میں 300فیصد اضافہ ہوا جب کہ یہودی مجموعی آبادی ایک کروڑ 30لاکھ تھی فورمین کے مطابق اگر 60لاکھ یہودی ہلاک نہ کئے جاتے تھے 2009 میں دنیا میں ان کی کل تعداد پانچ کروڑ دس لاکھ ہوتی۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے 59سال بعد 2004میں اقوام متحدہ کو کیوں خیال آیا کہ اس جنگ میں ہلاک ہونے والوں کو یاد رکھا جائے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جنگ کے بعد مغربی یورپ، جرمنی، فرانس، برطانیہ اوردیگر ممالک کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور جاپان اس جنگ کی دشمنیوں کو دوستیوں میں تبدیل کر چکے تھے بلکہ سرد جنگ کے دنوں میں یہ سب سابق سوویت یونین کے خلاف متحد تھے پھر نائن الیون کے تین برس بعد ہی دنیا ایک اور تباہ کن جنگ کے اندیشوں میں مبتلا ہو گئی اب یہ بہت اچھی طرح واضح ہو گیا ہے کہ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں کی طرح آئندہ کی کوئی بڑی جنگ یورپ خصوصاً مغربی یورپ کے بجائے ایشیا میں ہو گی اور بدقسمتی یہ ہے کہ آج دنیا کے سب سے زیادہ تباہ کن غیر ایٹمی ہتھیار ہمارے علاقے میں استعمال ہو رہے ہیں گزشتہ دنوں افغانستان میں مدر آف آل بمبز کے استعمال پر پوپ فرانسس نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ ماں محبت اور امن کی علامت ہے ایسے مقدس لفظ کو ایسے بھیانک ہتھیار کے لئے استعمال کرنا درست نہیں۔
ایک جانب تو یہ صورت حال ہے تو دوسری جانب ہمارے علاقے میں امن کی فضا تیزی سے جنگ کی طرف جا رہی ہے پاکستان، ایران، افغانستان اور بھارت جیسے ہمسایہ ممالک جو سارک، ایکو کے علاوہ شنگھائی اور بریکس جیسی علاقائی تنظیموں کے رکن بھی ہیں کے تعلقات تنازعات کی حدت کے سبب اس نہج پر پہنچ رہے ہیں جہاں چنگاریاں شعلوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں یہ صورت حال ایسی ہے جیسے کسی بہتر زرعی فصل کے پکنے کےبعد کھلیان کو چند دنوں کیلئے دھوپ میں رکھا جائے اور اس کے قریب چنگاریاں اٹھنے لگیں اگرچہ ابھی ہوا تیز نہیں ہے لیکن یہ ایک مہلت ہے، کہ پہلے ہی قریب کی چنگاریوں کوبجھا دیا جائے تو پھر ہوا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔ 8اور 9مئی کو دوسری جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والوں کویاد کیا جارہا تھا تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت غیر منقسم ہندوستان کے 38لاکھ افراد جنگ کی بھینٹ چڑھے تھے۔ اس جنگ سے مغربی یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی، جاپان سب نے سبق سیکھا مگر ہم جو اب ماضی کے مقابلے میں ترقی بھی کر چکے ہیں اور اب چین، روس، بھارت اور پاکستان جو نہ صرف ایٹمی قوتیں ہیں بلکہ اقتصادی اعتبار سے ایران، افغانستان، سینٹرل ایشیا سمیت دنیا کی آدھی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کے آدھے سے زیادہ وسائل کے مالک ہیں اگر ہم نے غفلت کی تو جنگ کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ اس لئے ہمیں سات سمندر پار کے ثالثوں کی بجائے آپس میں ہی معاملات طے کرنے چاہئیں اس موقع پر پاکستان، ایران اور افغانستان کو پہلے مرحلے میں سینٹرل ایشیا کے ملکوں کے ساتھ چین، بھارت اور روس کی شمولیت سے وسیع اور پائیدار بنیادوں پر معاملات دوسرے مرحلے میں طے کر لینے چاہئیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس خطے کے ملکوں میں پراکسی وار جاری ہے الزامات اور پروپیگنڈا اس طرح کی جنگ کے دو ہتھیار ہیں جن کو روکنے کے لئے بہت ہی خلوص اور امن کے جذبے کے ساتھ باہمی اعتماد کو بحال کریں اس کے لئے سب سے پہلے ان ممالک کو آپس میں دھونس اور دھمکیوں سے اجتناب کرنا ہو گا۔ ان ملکوں اور ان کی لیڈر شپ کو یہ بنیادی بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جنگ کوئی ایک ملک یا ایک فریق شروع کرتاہے مگر بعد میں جنگ کو روکنا کسی ایک فریق یا ایک ملک کے اختیار میں نہیں رہتا اس تلخ حقیقت کو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ پہلی اور دوسری عظیم جنگیں اگرچہ ہماری نہیں تھیں لیکن مرنے والوں میں بہت بڑی تعداد ہماری تھی خدانخواستہ اب یہاں جنگ شروع ہوئی تو اس کے تباہ کن نتائج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ان ملکوں کے رہنمائوں کو اس سے بچنے کےلئے کردار ادا کرنا چاہئے۔

تازہ ترین