• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فروری 1979ء میں ایرانی انقلاب کے سربراہ آیت اللہ خمینی نے ملا صادق خالخلی کو حاکم شرع یعنی شرعی انقلابی عدالتوں کا سربراہ مقرر کر دیا۔ گول مٹول خدو خال رکھنے والا 32 سالہ صادق خالخلی مذہبی احتساب کی صدیوں پرانی روایات کا جدید نمونہ ثابت ہوا۔ اسے سزائے موت سنانے کا شوق تھا۔ کبھی کبھار تو وہ یہ نیک کام اپنے ہاتھوں سے سرانجام دینے کے لئے مشین گن اٹھائے جیل پہنچ جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق صادق خالخلی روزانہ ساٹھ کے قریب ملزموں کو سزائے موت سناتا تھا۔ صادق خالخلی کی پسندیدہ اصطلاحات "زمیں پر فتنہ پھیلانا" اور "احکام الٰہی کی خلاف ورزی" تھیں۔ اس کی منطق بہت سادہ تھی۔ صادق خالخلی کہتا تھا کہ سزائے موت پانے والے افراد بے گناہ ہیں تو اللہ انہیں جنت میں بھیج دے گا۔ اور اگر یہ لوگ واقعی مجرم ہیں تو میرا فیصلہ ٹھیک قرار پائے گا۔ صادق خالخلی کی عدالت میں ایران کے سابق وزیر اعظم امیر عباس ہویدا کا مقدمہ پیش ہوا۔ حسب توقع سزائے موت سنا دی گئی۔ ایران کے عبوری وزیراعظم مہدی بازرگان نے خود فون کر کے صادق خالخلی سے امیر عباس ہویدا کی سزا پر عمل درآمد روکنے کی درخواست کی۔ صادق خالخلی نے مودب لہجے میں کہا، "جناب میں خود جا کر معاملہ دیکھتا ہوں۔" جیل پہنچ کر ملا صادق نے پستول نکالا اور امیر عباس ہویدا کو گولی مار دی۔ چند منٹ بعد افسوس ناک لہجے میں وزیرا عظم کو اطلاع دی کہ بدقسمتی سے امیر عباس کی سزا پر پہلے ہی عمل درآمد ہو چکا تھا۔ 24 فروری 1979 سے یکم مارچ 1980 تک صرف ایک برس چھ دن میں صادق خالخلی نے ہزاروں افراد کو سزائے موت سنائی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صادق خالخلی کو بدعنوانی کے الزام میں اپنے عہدے سے معزول کیا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے جرمانوں اور ضبطگیوں کی مد میں ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالر خوردبرد کئے۔
ہمارے ملک میں بھی احتسابی جنون کی مثالوں کی کمی نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب "یہ خاموشی کہاں تک؟"تو خود راستی اور عزائم کی تلبیس میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ موصوف کا دعویٰ ہے کہ انہیں اپنے ادارے میں بدعنوانیوں کی نشاندہی کرنے پر پرویز مشرف کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا۔ بریگیڈیئر (ر) اسلم گھمن صوبہ سرحد (تب) میں نیب کے سربراہ رہے۔ ان کی تصنیف لطیف کا عنوان ہے "ہاں یہ سچ ہے"۔ اس عنوان کی تحلیل نفسی نفسیات کے کسی مبتدی سے کروا لیجئے گا۔ البتہ اس کتاب میں صفحات 96-97 پر ایک اقتباس قابل غور ہے۔ بریگیڈیئر اسلم گھمن صاحب نیب کا صوبائی سربراہ مقرر ہونے کے بعد صوبے کے چیف سیکرٹری عبداللہ صاحب سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ عبداللہ صاحب سے مارچ 1997 میں عمر اصغر خان شہید کی معیت میں ایک ملاقات کا شرف درویش کو بھی حاصل ہے۔ جیتے جاگتے انسان میں حنوط شدہ پارۂ مغز کی ایسی مثال کم ہی دیکھنے میں آئی۔ بریگیڈیئر اسلم گھمن سے عبداللہ صاحب کے مکالمے کا ایک جملہ ملاحظہ کیجئے۔ "گھمن صاحب، میں آپ کی اس لئے مدد کر رہا ہوں کہ احتساب ایک واحد عوامی مطالبہ ہے۔ کیونکہ آج تک کسی کا احتساب نہیں کیا گیا۔ ملک کے ادارے کرپشن کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں … اسی لئے عوام نے جنرل پرویز مشرف کے صرف اس یک نکاتی ایجنڈے کو سراہا اور اس کی حکومت کو قبول کیا ہے۔ لیکن میں سن رہا ہوں کہ وہ اس ایجنڈے کے ساتھ سات نکاتی ایجنڈا بھی دے رہے ہیں۔ جس میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ میرے خیال میں وہ صحیح نہیں ہو گا کیونکہ احتساب کے علاوہ ایجنڈے کے باقی نکات عوامی مطالبہ نہیں ہیں۔ عوامی مطالبہ صرف ایک ہی ہے اور وہ بلاتفریق احتساب ہے"۔ صوبے کے چیف سیکرٹری کی بصیرت ملاحظہ کیجئے کہ ملک کا آئین توڑنے والے سے احتساب کی توقع لگائے ہوئے تھا۔ دوسرا دلچسپ نکتہ یہ کہ صوبے کا سب سے بڑا انتظامی افسر ریاست اور معاشرے کی پیچیدگیوں سے ایسا نابلد کہ صرف ایک نکتے کو فلاح کا نسخہ سمجھتا ہے۔ نرگسیت کا یہ عالم کہ اپنی ذاتی رائے کو عوام کی رائے سمجھ بیٹھا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ عبداللہ صاحب کو جس شخص سے احتساب کی امید تھی وہ ان دنوں خود اپنے احتساب سے خوفزدہ ہو کر بیرون ملک بیٹھا ہے۔
دیکھئے آپ کو ایک مثال ایران سے دی اور ایک پاکستان سے۔ اب کچھ فکری تناظر دیکھ لیتے ہیں۔ بیسویں صدی میں درجنوں نوآبادیوں کو آزادی ملی۔ ان میں کچھ ممالک میں آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کرنا پڑی۔ ایسے ممالک میں عسکری قوتوں نے آزادی کی جدوجہد میں شرکت کو اقتدار پر غاصبانہ قبضے کا جواز بنا لیا۔ پاکستان سمیت کچھ ممالک میں آزادی کے لئے مسلح لڑائی کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ایسے ممالک میں طالع آزماؤں نے دو منتر دریافت کئے۔ اول: سیاست دان نااہل ہیں، دوم: سیاست دان کرپٹ ہیں۔ تو کرپشن کا یہ نعرہ ہمارے ہاں نیا نہیں۔ ایوب خان نے 98 معروف سیاستدانوں پر ایبڈو کے مقدمات دائر کئے۔ یحییٰ خان نے 303 مفروضہ کرپٹ افسر برطرف کئے۔ بھٹو صاحب نے 1300 سرکاری افسر ٹھکانے لگا دئیے۔ یہ واقعہ تو ہماری تاریخ کا المیہ ہے کہ عبدالولی خان نے جنرل ضیاالحق کو مشورہ دیا کہ انتخابات سے مثبت نتائج لینے کے لئے پہلے احتساب کا عمل مکمل کیا جائے۔ اس پر جابر سلطان سے اجازت لے کر کلمۂ حق ادا کرنے والے ایک اخبار نے اداریہ جمایا تھا، "جناب صدر، احتساب شروع کر دیں"۔ پرویز مشرف کا احتساب بیورو تو ابھی کل کی بات ہے۔ یہ ادارہ اکتوبر 2002 کے انتخابات میں مثبت نتائج حاصل کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ اب تو فیصل صالح حیات، چشم بد دور، پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ وہ ان معاملات کے درون خانہ محرم ہیں۔
ہم سیاسی شعور کے اعتبار سے قرون وسطیٰ کی دنیا کے باسی ہیں۔ ہم احتساب اور جواب دہی کا فرق نہیں سمجھتے۔ مشرقی شعر کی روایت میں محتسب کا استعارہ خاص معنی رکھتا ہے۔ مسیحی کلیسا میں احتساب Inquisition کے معنوں میں مستعمل تھا۔ مطلق العنان حکومتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں تو اپنی نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے احتساب کا ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔ جمہوری ثقافت میں قانون کے سامنے جواب دہی ایک مسلسل عمل ہے جب کہ احتساب اور تطہیر کا مفہوم ایک ہنگامی مہم ہوتا ہے۔ مطلق العنان حکومتوں میں احتساب ایک ہنگامی نسخے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد عام لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے علاوہ اقتدار کے ممکنہ امیدواروں کو راستے سے ہٹانا بھی ہوتا ہے۔ احتساب اور انصاف بنیادی طور پر دو مختلف تصورات ہیں۔ انصاف ایک استوار بندوبست کا نام ہے جب کہ احتساب خود راستی اور پس پردہ کیمیا گری کا جنون ہوتا ہے۔ انصاف معاشرے کو شفاف، محفوظ اور بہتر بنانے میں ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ تاریخ میں احتساب کی ہر مہم بری طرح ناکام ہوئی۔ ملا صادق خالخلی کا احتسابی جوش ان کی اپنی قبا میں چھپا ہوا چور نکلا۔ ایوب خان کا احتساب گندھارا دستکاری کا نمونہ بن گیا۔ پرویز مشرف کا احتساب ناگزیر طور پر ناکام ہوا۔ احتساب میں ایک نظریاتی زاویہ پایا جاتا ہے۔ نظریاتی ایقان کے ساتھ جو ظلم کیا جاتا ہے ، وہ ضمیر کی معمولی خلش سے بھی عاری ہوتا ہے۔ انصاف کو نیت سے غرض نہیں ہوتی، انصاف شواہد اور ضابطے پر انحصار کرتا ہے۔ ایک سوال کا جواب البتہ احتسابی کٹھ پتلیوں سے مانگنا چاہئے کہ وہ احتساب کی امید ایک خاص ریاستی ادارے کے ایک خاص منصب دار ہی سے کیوں باندھتی ہیں۔ ہاری ہوئی سوچ کا المیہ یہی ہوتا ہے کہ اسے تاریخ کے دریا کا بہاؤ معلوم نہیں ہوتا۔ پسماندہ سوچ احتساب کے پتھروں سے سر پھوڑتی رہتی ہے جب کہ تاریخ کا دریا انصاف کے میدانوں میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔ یاد رکھنے کا اصول یہ ہے کہ تاریخ کا دریا الٹا نہیں بہتا۔

 

.

تازہ ترین