• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز مشرف اور سعودی عرب!...نقش خیال…عرفان صدیقی

کیا برادر اسلامی ملک سعودی عرب جنرل (ر) پرویز مشرف کی جاں بخشی میں کوئی سرگرم کردار ادا کرنے جا رہا ہے؟
جوں جوں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کچھ سابق بلونگڑوں کا شروع کیا ہوا ”ٹام اینڈ جیری“ کھیل پھیکا پڑ رہا ہے وہ سوالات پھر سے سر اٹھانے لگے ہیں جنہیں بڑی ہنرمندی کے ساتھ پس منظر میں دھکیل دیا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں وزیر داخلہ رحمن ملک ریاض پہنچے۔ عمومی روایات کے برعکس انہیں اعلیٰ پروٹوکول دیا گیا۔ شہزادہ نائف جو ایک دن قبل حملے میں زخمی ہوچکے تھے، ملک صاحب کے استقبال کے لئے خود ہوائی اڈے پہنچے۔ انہیں خادم الحرمین شریفین سے ملاقات کا اعزاز بھی حاصل ہوا جنہیں صدر زرداری کا ایک خصوصی پیغام پہنچایا گیا۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو ہنگامی طور پر لندن سے بلایا گیا۔ اطلاعات ہیں کہ ان کا ویزہ لگانے کے لئے اتوار کو لندن میں سعودی ویزہ سیکشن کھولا گیا۔ پرویز مشرف کی شاہ عبداللہ سے طویل ملاقات ہوئی۔ وہ سعودی حکومت کے کئی اہم عہدیداروں سے بھی ملے۔
اتنی کہانی تو سب کو دکھائی دے رہی ہے لیکن اس اصل داستان تک کسی کی رسائی نہیں جو ان ملاقاتوں سے بنی اور پرشکوہ شاہی محلات کی منقش کلام گردشوں میں گم ہوگئی۔ اندازہ و قیاس پر کوئی قدغن نہیں اور پرواز تخیل کے سامنے لامحدود نیلگوں فضائیں پھیلی ہوئی ہیں۔ پرویز مشرف کے ایک دو حاشیہ بردار اسے نہایت ہی کامیاب دورہ قرار دے رہے ہیں اور سابق صدر کو ملنے والے پروٹوکول کو ان کے عظیم مرتبہ و مقام سے تعبیر کر رہے ہیں۔ خود مشرف صاحب کا کہنا ہے کہ وہ اپنے لئے نہیں، پاکستان کے لئے کچھ مانگنے آئے تھے۔ یہ ان کا پرانا انداز استدلال ہے۔ 12/اکتوبر 1999ء سے 3 نومبر 2007ء تک انہوں نے ہر کام ”سب سے پہلے پاکستان“ کی بنیاد پر کیا۔ وہ خود کو پاکستان خیال کرتے ہیں اس لئے اگر انہوں نے اپنی ذات کے لئے بھی دست سوال دراز کیا ہے تو بھی اسے وہ پاکستانی مفاد ہی کہیں گے۔ ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ سابق ڈکٹیٹر کی عرض داشت کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ سعودی حکام نے واضح کر دیا کہ جب تک آپ پاکستانی قوم سے اپنی کارستانیوں کی معافی نہیں مانگتے، ہم کوئی رعایت دینے کی پوزیشن میں نہیں۔
حقیقت ابھی سو پردوں میں چھپی ہے لیکن جلد ہی بھید کھلنے لگیں گے۔ لاہور میں سینئر اخبار نویسوں سے ملاقات کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ سعودی عرب کو اپنے معاملات میں نہ ہی گھسیٹا جائے تو بہتر ہوگا۔ ادھر ایک انگریزی اخبار کے صفحہ اول پر پاکستان میں سعودی عرب کے نئے سفیر عزت مآب عبدالعزیز ابراہیم الغدیر کی گفتگو شائع ہوئی ہے۔ سفیر محترم نے کہا کہ سعودی عرب نہیں چاہتا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے الجھیں لیکن ہم صرف اس صورت میں اپنا کردار ادا کریں گے جب متعلقہ فریق ہمیں ایسا کرنے کے لئے کہیں۔ یہ پاکستان کے داخلی معاملات ہیں۔ اگر ہمارے دوست ہمیں مداخلت کے لئے کہیں گے تو ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ ہم ایک مضبوط، محفوظ اور مستحکم پاکستان چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس ضمن میں ہم تعاون کا ہاتھ بڑھا سکتے ہیں۔ ہمارے تمام سیاسی جماعتوں سے تعلقات ہیں اور کوئی ہمیں زیادہ محبوب نہیں۔
عبدالعزیز ابراہیم الغدیر کا بیان سفارتی قرینوں سے آراستہ ہے لیکن اس میں پاکستان کی داخلی سلامتی اور استحکام کے حوالے سے سعودی عرب کی خصوصی دلچسپی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ دونوں ممالک کے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کی گرم جوشی، پاکستان کے سیاسی نشیب و فراز سے ماوریٰ رہی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی حکومتوں کے ساتھ اس کے یکساں روابط رہے ہیں۔ سعودی عرب میں جمہوریت کے حوالے سے زیادہ حساسیت نہیں پائی جاتی۔ اس لئے فوجی حکمرانوں کے ساتھ بھی اس کا رشتہ و تعلق ہمیشہ مضبوط رہا ہے بلکہ بسا اوقات جمہوری حکمرانوں کی نسبت کہیں زیادہ مضبوط تر۔
پرویز مشرف کے متعلق سعودی عرب کے معاملے کے تین حوالے پیش نظر رکھنا ہوں گے۔ پہلا یہ کہ سعودی عرب کے اصرار (جو ایک مرحلے پر شدید دباؤ میں بدل گیا تھا) پر مشرف، میاں برادران کی سزاؤں کی معافی، رہائی اور سعودی عرب روانگی پر تیار ہو گیا تھا۔ میں ان دنوں ایوان صدر میں تھا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ پرویز مشرف کی قیادت میں صدر تارڑ کے پاس آنے والے جرنیل کس طرح حواس باختگی کی حد تک پریشان تھے۔ انہوں نے صدر تارڑ سے بڑی لجاجت سے کہا تھا کہ وہ قانون دان بھی ہیں اس لئے فوراً کوئی راستہ نکالیں کیونکہ سعودی عرب نے شدید دباؤ ڈال رکھا ہے۔ دوسرا حوالہ یہ ہے کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو کے پاکستان آنے کے بعد سعودی عرب نے طے کر لیا کہ اب نواز شریف کو جدّہ نہیں روکا جائے گا تو مشرف کی ہزار منت سماجت کو نظرانداز کرتے ہوئے میاں صاحب کو شاہی پروٹوکول کے ساتھ پاکستان بھیج دیا گیا۔ تیسرا حوالہ یہ کہ جب مشرف کے بڑے آقاؤں نے اسے مواخذے کی رسوائی سے بچانے کے لئے ، گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا تو اس کے بارے میں بعض تحفظات کی ضمانت لی گئی۔ سعودی عرب بھی ان ممالک میں شامل تھا جسے جناب آصف زرداری اور کچھ دوسروں کی طرف سے ضمانت دی گئی کہ مشرف مستعفی ہو جائے تو اس کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنایا جائے گا۔
اس عہد و پیمان کا کمزور پہلو یہ ہے کہ اس وقت میاں نواز شریف کو اعتماد میں لینے اور ضمانتوں کے اس کھیل میں شریک کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی اور اب سعودی عرب کے لئے کوئی ایسا کردار ادا کرنا مشکل ہو رہا ہے جو پاکستانی سیاست کے تمام کرداروں کے لئے قابل قبول ہو اور جسے بالعموم پاکستانی عوام کی تائید و حمایت بھی حاصل ہو۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے عالمی گُرگے ان نزاکتوں کا خیال نہیں رکھتے۔ وہ اپنا کام اپنے مرغانِ دست آموز سے نکال لیتے ہیں۔ پاکستانی عوام ان کی کتاب سیاست سے خارج ہیں لیکن سعودی عرب ایک مخلص دوست کی حیثیت سے پاکستانی عوام کے جذبہ و احساس کو بھی بڑی اہمیت دیتا ہے۔ نزاعی معاملات میں وہ کبھی اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈال دینا پسند نہیں کرتا۔ نواز شریف کی پہلی جلاوطنی کے وقت جو کچھ طے پایا اس پر تمام متعلقہ فریق بھی متفق تھے اور پاکستانی عوام نے بھی بالعموم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ جب دوسری بار سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود مشرف نے طے کر لیا کہ نواز شریف کو پاکستان نہیں آنے دیا جائے گا اور انہوں نے سعودی عرب کو قائل کر لیا کہ وہ ایک بار پھر نواز شریف کو (ان کی مرضی کے برعکس) جدّہ لے جائے تو ایسا ہی ہوا۔ اس موقع پر سعودی انٹیلی جنس کے چیف شہزادہ مقرن نے اسلام آباد میں ایک پریس ٹاک بھی کیا۔ یہ سعودی روایت کے برعکس ایک متنازع اقدام تھا جس پر پاکستانی عوام کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ چند دن بعد سعودی قومی دن کی تقریب میں صف اول کے کسی پاکستانی سیاستدان نے شرکت نہ کی۔ اس پر میں نے اپنے دوست علی عصیری کو بے حد دل گرفتہ دیکھا تھا۔ سعودی عرب کو بھی جلد اپنی غلطی کا اندازہ ہوگیا۔ میاں نواز شریف جدّہ پہنچے تو چوتھے ہی دن پرانس سعود الفیصل نے انہیں آگاہ کر دیا تھا کہ انہیں ایک ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر پاکستان بھیج دیا جائے گا اور پھر مشرف کی ہزار کوششوں کے باوجود ایسا ہی ہوا۔
سعودی عرب کسی ایسے فارمولے کی تلاش میں ہے جو مشرف کے ٹرائل کا مطالبہ کرنے والوں کے لئے بھی قابل قبول ہو مثلاً ڈکٹیٹر کھلے عام آئین شکنی اور اپنی غلطیوں کی معافی مانگے اور قوم اسے معاف کر دے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اور مشرف کے کڑے محاسبے کا مطالبہ موجود رہتا ہے تو امکانی طور پر سعودی عرب پاکستانی قوم کے ایک مطلوب مجرم کو پناہ نہیں دے گا۔ ایک شخص کے لئے کروڑوں عوام کے دلوں کو زخمی کرنا اور اپنی خیرسگالی کو داؤ پر لگانا شاید سعودی فرمانرواؤں کو قبول نہ ہو۔
تازہ ترین