• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ پیر کی شام لاہور کے تھنک ٹینک پائنا اور اُردو ڈائجسٹ نے افطاری اور ’’شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی رکنیت کے ثمرات‘‘ پر راؤنڈ ٹیبل کا اہتمام کیا۔ راقم الحروف نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے اہلِ وطن کو مبارک باد دی کہ ہماری کرکٹ ٹیم نے بھارت کو شکست دے کر چیمپئنز ٹرافی جیت لی ہے اور پوری قوم کے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ میں نے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا جب آستانہ سربراہ کانفرنس میں وزیراعظم نوازشریف مستقل رکنیت کے کاغذات پر دستخط کررہے تھے، تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا اور مجھے یوں محسوس ہوا تھا کہ میرا ملک بڑی طاقتوں کی ہم سفری میں ترقی، خوشحالی اور ناقابلِ شکست سلامتی کی نئی منزلیں تیزی کے ساتھ طے کرے گا اور آخرکار ایک نیا عالمی نظام وجود میں آئے گا جو استحصال کے بجائے باہمی تعاون اور شراکت داری پر قائم ہوگا اور اس کی تشکیل میں پاکستان کا کلیدی کردار ہو گا۔ چین تو ہمارا ایک بے مثال اور قابلِ ستائش دوست ہے اور اب خوش قسمتی سے روس بھی پاکستان کے بہت قریب آ گیا ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی صورت گری کا ایک نہایت دلآویز نقشہ کھینچا ہے اور ایشیا میں اسے اپنا ایک اہم ساتھی قرار دیا ہے۔ اس نے سی پیک سے کامل ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کی کہ اسے شنگھائی تعاون تنظیم کے منصوبوں میں شامل کیا جائے تاکہ تمام ارکان اس سے مستفید ہو سکیں۔ اس سے بھارت کو واضح پیغام دینا مقصود تھا کہ وہ اس گراں قدر منصوبے کی مخالفت سے باز آ جائے۔ چین نے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کے وسیع و عریض منصوبوں میں پاک چین اقتصادی راہداری کو مرکزی اہمیت دی ہے جس پر پچپن ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان ہو چکا ہے اور چند ہی روز پہلے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے پانچ ارب ڈالر کی پیشکش بھی ہوئی ہے۔ سی پیک کی تعمیر سے پاکستان کے پس ماندہ علاقوں میں بھی شاہراہوں اور اقتصادی منطقوں کا جال بچھ جائے گا اور اس کے وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ براہِ راست مواصلاتی رابطے قائم ہو جائیں گے۔
پاکستان کے بالغ نظر تجزیہ نگار جناب سجادمیر جو وزیراعظم کے وفد میں آستانہ گئے تھے، انہوں نے سربراہ کانفرنس کی دلچسپ تفصیلات بیان کیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ اس میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو زبردست سفارتی کامیابی حاصل ہوئی۔ ہمارے مشیرِ خارجہ ہم صحافیوں سے ملنے آئے اور باتوں باتوں میں کہہ گئے کہ بھارت سرتوڑ کوشش کر رہا ہے کہ اس بار صرف اسے مستقل رکنیت دی جائے، جبکہ پاکستان کو ایران اور منگولیا کے ساتھ نتھی کر کے اس کی رکنیت مؤخر کردی جائے۔ اس پر مشورہ ہوا اور سرتاج عزیز صاحب چینی صدر کے پاس گئے اور انہیں بھارت کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ چینی صدر نے ایک لمحہ تامل کیے بغیر دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ایسا نہیں ہو گا اور دونوں ہی ملک ایک ساتھ مستقل رکنیت حاصل کریں گے۔ یوں ان کی کوششوں سے بھارتی منصوبہ ناکام ہو گیا۔
میر صاحب کہہ رہے تھے کہ شنگھائی سربراہ کانفرنس کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی تھا کہ چینی صدر نے تجویز پیش کی کہ تمام ارکان اچھی ہمسائیگی کے معاہدے پر دستخط کریں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اس خیال کی پُرزور تائید کی۔ دراصل اس تجویز کے ذریعے بھارت کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائے اور اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنے کا ماحول پیدا کرے۔ اب شنگھائی تعاون تنظیم میں رہتے ہوئے اسے خطے میں چودھراہٹ کی اندھی خواہش سے دستبردار ہونا پڑے گا جسے امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان، چین کے مدِمقابل ایک بالادست قوت بنانا چاہتے ہیں۔ سربراہ کانفرنس میں سب سے زیادہ تشویش افغانستان اور پاکستان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بارے میں پائی جاتی تھی۔ ہمارے وزیراعظم نے افغان صدر اشرف غنی سے تفصیلی ملاقات کی جس میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے مشترکہ کوششوں کو بروئے کار لانے پر اتفاق کیا گیا۔ انہوں نے روسی صدر پیوٹن سے بھی بڑے دوستانہ ماحول میں ملاقات کی اور انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی جو قبول کر لی گئی۔ سفارتی میدان میں یہ ایک بہت اہم پیش رفت ہو گی۔
یونیورسٹی لا کالج کے استاد ڈاکٹر امان اللہ نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر نیٹو جیسی فوجی طاقت، سی پیک جیسی معاشی قوت اور باہمی تعاون کی فضا پیدا کرنے کے لیے بے پناہ توانائی کے علاوہ اس کے چارٹر میں دو طرفہ تنازعات کے تصفیے کی شق بھی موجود ہے۔ پاکستان کو کشمیر کا مسئلہ اُٹھانے اور اس کے پائیدار حل تک پہنچنے کا نہایت عمدہ موقع ملے گا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ شنگھائی گروپ نے اپنی رپورٹ میں دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں کو اپنا دشمن قرار دیا ہے۔ پاکستان ان مشترکہ دشمنوں پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور اس حوالے سے ہماری مسلح افواج پوری دنیا میں توجہ اور تحسین کی مرکز بنی ہوئی ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگار میجر (ر) ایرج زکریا نے اس اہم حقیقت کی نشان دہی کہ شنگھائی تنظیم کے چار ارکان ایٹمی طاقت کے حامل ہیں جن کو ایک ضابطے کے تحت حدود میں رکھا جا سکے گا اور پاکستان پر سے امریکی دباؤ کم ہوتا جائے گا۔
معروف کالم نگار جناب حبیب اکرم نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ہونے جس میں وسطی ایشیا کی چھ ریاستیں شامل ہیں اور سی پیک کا حصہ بن جانے اور اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے پاکستان جنوبی ایشیا کے بجائے وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے منطقے سے عملی طور پر منسلک ہو گیا ہے۔ اب وہ وسطی ایشیا تک آنے جانے کا واحد محفوظ دروازہ ہے اور شنگھائی تنظیم میں شرکت سے پاکستان کو تعاون اور حمایت کے نئے مراکز میسر آ گئے ہیں۔ چین جس کی معیشت ہزاروں ارب ڈالروں پر محیط ہے، اس کے لیے پاکستان میں سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کوئی مشکل کام نہیں۔ بیش قیمت سرمایہ کاری سے پاکستان کی معیشت میں استحکام آئے گا اور خود انحصاری کی طرف پیش قدمی بڑی حد تک یقینی ہو جائے گی، تاہم اس پورے عمل میں ہمیں بھارت فوبیا سے باہر آنا ہوگا۔
اقتصادی امور کے ماہر جناب جاوید نواز نے شنگھائی تعاون تنظیم کی افادیت اور اہمیت کا نقش ان الفاظ میں ثبت کیا کہ ترک صدر اردوان نے کہا ہے کہ اگر شنگھائی تنظیم ترکی کو اپنے اندر شامل کر لیتی ہے، تو ہم یورپی یونین میں شامل ہونے کی درخواست واپس لے لیں گے۔ یہ طاقتور تنظیم دنیا کی تین ارب آبادی پر محیط ہے جو 25فی صد معیشت کی مالک ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان ان امکانات سے کس قدر فائدہ اُٹھا سکے گا۔ میرے خیال میں ہمیں کم ازکم دس سال تک عدالتوں، اخبارات میں اور سڑکوں پر الزام تراشی اور کردار کشی کا گھناؤنا کھیل بند کر کے اپنی تمام تر توجہ انسانی وسائل کی ترقی پر دینا اور صارفین کی صنعت کو پیداواری معیشت میں تبدیل کرنا ہو گا۔ حضرت قائداعظم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہمیں ایسی معیشت کی داغ بیل ڈالنی ہو گی جو صنعت کار اور صارف سے پورا پورا انصاف کر سکے۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2050ء میں چینی معیشت امریکی معیشت کے مقابلے میں دوگنی ہو گی جبکہ بھارتی معیشت دوسرے اور امریکی معیشت تیسرے نمبر پر آ جائے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا نمبر 26واں ہو گا بشرطیکہ وہاں سیاسی استحکام قائم ہو چکا ہو اور لوگ کام کرنے کے عادی ہو جائیں۔ جناب جاوید نواز نے کہا کہ ہم اپنی آبادی کے لحاظ سے معاشی طور پر چھٹا مقام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو کے بعد حاضرین اس عزم کے ساتھ اُٹھے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر شمولیت کے تاریخ ساز موقع نے پاکستان میں اُمید اور جذبوں کی جو قندیل روشن کی ہے، اسے فروزاں رکھیں گے اور عوام کو بنیادی اہمیت دیں گے۔

 

.

تازہ ترین