• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقبال نے کہا تھا
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہرزماں اپنے عمل کا حساب
لیکن ہمارا شمار اس ”زیاں کار“ اور ”سود فراموش“ گروہ میں ہوتا ہے جس کے پاس اپنے عمل کا حساب کرنے‘ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے‘ اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنے‘ اپنے نفع و نقصان کا گوشوارہ بنانے اور اپنے دامان دریدہ کی بخیہ گری کرنے کا وقت ہی نہیں۔ نائن الیون آٹھ برس پیچھے رہ گیا ہے۔ وہ سیاہ بخت رات تھی سیل رواں میں کہیں گم ہوگئی جب ہمارے جری کمانڈو کو واشنگٹن سے ایک فون آیا تھا اور اسے کہا گیا تھا ”ہم افغانستان پر حملہ کرنے آرہے ہیں‘ اچھی طرح کان کھول کر سن لو کہ تمہارے کرنے کے کام کیا ہیں“۔
-1 پاکستان فی الفور اپنی سرحدوں پر القاعدہ کی سرگرمیاں بند کردے۔ہتھیاروں کی سپلائی روک دے اور اسامہ بن لادن کے لئے ہرنوع کی فنی اور دیگر امداد بندکردے۔
-2 پاکستان کے کسی بھی حصے میں امریکی افواج کی پروازوں کو اترنے کی اجازت ہوگی۔
-3 امریکہ کو پاکستان کے تمام بری‘ بحری اور فضائی اڈوں تک رسائی دی جائے گی۔
-4 انٹیلی جنس کا فوری تبادلہ کیا جائے گا اور غیر ملکیوں کے بارے میں تمام معلومات فراہم کی جائیں گی۔
-5 11 ستمبر کے حملوں کی مذمت کی جائے۔امریکہ اور اس کے دوستوں کے خلاف دہشت گردی کرنے والوں کی مقامی حمایت ختم کی جائے۔
-6 طالبان کو ایندھن کی سپلائی بند کردی جائے اور پاکستانی نوجوانوں کو طالبان کا حصہ بننے سے روکا جائے۔
-7 اگر شواہد سے ثابت ہوکہ اسامہ لادن اور القاعدہ افغانستان میں موجود ہیں اور اگر طالبان انہیں پناہ دیتے ہیں تو پاکستان ‘ طالبان کی حکومت سے سفارتی تعلقات منقطع کرلے‘ نیز اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو ختم کرنے میں ہر ممکن تعاون کرے۔
یہ 13/ستمبر ہی کی تیرہ بخت رات تھی‘ ساڑھے گیارہ بج رہے تھے جب یہ فہرست مطالبات پاکستان کے طاقتور مرد آہن‘ جنرل پرویز مشرف کے گوش گذار کردی گئی اور پیشتر اس کے کہ فون کرنے والاامریکی فون کا چونگا کریڈل پر رکھتا ‘ کمانڈو نے گھگھیائی ہوئی آواز میں کہا۔ ”مجھے یہ تمام مطالبات منظور ہیں“۔ عین اس لمحے تاریخ کے بطن سے ایک نئے پاکستان نے جنم لیا جو 14 /اگست 1947ء کی شب ‘ 12 بجے طلوع ہونے والے پاکستان سے قطعی مختلف تھا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان مضبوطی کے ساتھ اپنے قدموں پرکھڑا نہیں ہوسکا۔پہاڑ سے لڑھکتے پتھر کی طرح وہ پستیوں کی طرف محو سفر ہے۔
باب وڈ ورڈ‘ اپنی معروف کتاب” بش ایٹ وار“ (Bush at War) میں بتاچکا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کا انتہائی اہم اجلاس جاری تھا جب کولن پاول نے فرط مسرت سے سرشار لہجے میں کہا۔ ”مشرف نے ساتوں مطالبات مان لئے ہیں“۔ بش سمیت سارے شرکائے اجلاس کی باچھیں کھل گئیں لیکن انہیں یقین نہیں آرہا تھا۔ باب وڈ ورڈ کے مطابق امریکیوں کا خیال تھا کہ مشرف تھوڑی لیت و لعل کے بعد دو مطالبات مان لے گا۔ ایک دو پر آئندہ کچھ دنوں میں اسے قائل کرلیاجائے گا اور دو تین وہ کسی صورت تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ فون کال ختم ہوتے ہوتے وہ بلاچوں و چرا ساری کے سارے مطالبات تسلیم کرلے گا۔
آج بھی یہ کہنے والے موجود ہیں کہ ”دوسرا کوئی راستہ تھا ہی نہیں“۔ اگر ان کی دلیل مان لی جائے تو بھی یہ ”واحد “ راستہ اختیار کرنے کا نہایت بھی بھونڈا‘احمقانہ‘ بے وقار اور بے حمیت انداز تھا۔ قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ جبر کے ناگزیر موسموں میں بھی ایک سے زیادہ راستے موجود ہوتے ہیں۔یہ راستے اُس وقت کھلتے ہیں جب کسی قوم کا قائد بظاہر ناممکن اور مشکل راستے کا انتخاب کرلے۔ اور اگر کسی شخص میں قائدانہ صلاحیت نہ ہو‘ اُس کے اعصاب ایک ہی ضرب سے کرچیاں ہوجائیں اور وہ بے حمیتی کے آسان راستے ہی کو واحد آپشن سمجھ لے تو بھی کسی نہ کسی حد تک اپنے نفع و ضرر پر غور ضرور کرلیتا ہے۔خودفروشی کا فیصلہ کرلینے کے بعد بھی اُس کے پاس اپنی قیمت بڑھانے اور مول تول کرنے کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ مانا کہ مشرف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور سجدہ ریز ہونے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا لیکن کیا وہ تھوڑے سے وقت کی بھیک بھی نہیں مانگ سکتا تھا؟ کیا خوف کی ان ساعتوں میں اُس کے پاس اتنے الفاظ بھی نہیں رہے تھے کہ وہ امریکہ سے پوری ہمدردی اور اُس کے مطالبات کے بارے میں اصولی اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے اپنے سیاسی اور فوجی رفقاء سے مشاورت کے لئے‘ ہفتوں نہ سہی‘ دنوں نہ سہی‘ چند گھنٹوں ہی کی مہلت لے لے؟ امریکہ ایک آزاد اور خود مختار ملک سے اُس کی آزادی‘ اُس کی خودمختاری‘ اُس کا اسلامی تشخص‘ اُس کی تاریخی روایات‘افغانوں سے اس کا روایتی رشتہ و تعلق‘ اُس کی آبرو اور اُس کی حمیت مانگ رہا تھا‘ مشرف یہ سارا اثاثہ کولن پاؤل کی جھولی میں ڈالنے سے قبل ملت فروشی کی کوئی معقول قیمت تو مانگ لیتا؟ سب کچھ جنس بازار بنادینے کے سوا کوئی چارہ کارنہ تھا تو بھاؤ تاؤ تو کرلیاہوتا۔ اپنے آپ کو بیچ دینا بڑا کاری زخم ہوتا ہے۔بھاری قیمت کسی حدتک اس زخم کا مرہم بن جاتی ہے لیکن امریکہ کی رعونت کے سامنے فقط ایک ہی راستے کی نشاندہی اور مشرف کی وکالت کرنے والے اس نکتے پہ کیوں چپ رہتے ہیں کہ پاکستان کو منڈی کا مال بناتے وقت اُس نے معقول قیمت کیوں نہ لی؟
پاکستان فروشی کا معاوضہ دو طریقوں سے وصول کیا جاسکتا تھا۔ ایک یہ کہ پاکستان پر واجب الاداتمام امریکی قرضے فی الفور معاف کرنے کے لئے کہا جاتا۔ ترکی کی طرح بھاری نقد مالی امداد کا مطالبہ کیا جاتا۔ کشمیر پر کوئی ٹھوس اور کھلی ضمانت لی جاتی اور تعاون کو حدود وقیود میں رکھنے کا میکانزم منوایا جاتا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ پاکستان کے مفادات کو پس پشت ڈال کر مشرف اپنی شخصی حمایت ‘ اپنے اقتدار کے تحفظ اور اپنے آمرانہ اقدامات سے چشم پوشی کا بلینک چیک وصول کرلے۔ کمانڈو نے دوسرا طریقہ پسند کیا۔ وہ شخص جس سے صدر کلنٹن ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتا تھا اور اسلام آباد آمد پر جس کے ساتھ ملتے ہوئے تصویر بنانے کی اجازت نہیں دی تھی ‘ وہ یکایک جان جاناں بن گیا‘ اس کے لئے کیمپ ڈیوڈ میں ضیافتیں ہونے لگیں اور اس کے استقبال کے لئے سرخ قالین بچھائے جانے لگے۔امریکہ نے اپنا وعدہ نبھایا۔ مشرف کے ہر آمرانہ اور قاہرانہ اقدام کا ساتھ دیا۔ حتیٰ کہ عدلیہ کے قتل اور ججوں کی حراست پر بھی کسی امریکی کے کنج لب سے کوئی حرف شکایت نہ پھوٹا۔ آٹھ برس تک ایک ڈکٹیٹر جمہوریت ‘ آئین‘ قانون‘ انسانی حقوق‘ عدلیہ اور شخصی آزادیوں سے کھیلتا رہا اور امریکہ اس کے سرپر اپنی شفقت کی چھتری تانے‘ اس کی بلائیں لیتا رہا۔ یہ تھی وہ قیمت جو مشرف نے وصول کی۔ پھر پوری مکاری سے اسے ”سب سے پہلے پاکستان“ کا لبادہ پہنایا اور قائد اعظم کے پاکستان کو ایک ایسی بے بال و پر ریاست میں بدل دیا جو آج تک امریکی جبر کے تلاطم میں غوطے کھارہی ہے اور ساحل دور دور تک نظر نہیں آتا۔مشرف سے پہلے کا پاکستان بھی مثالی نہ تھا۔ تب بھی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں۔ لیکن وہ آج کے پاکستان سے کہیں زیادہ معتبر ‘ کہیں زیادہ باوقار ‘ کہیں زیادہ تنومند‘ کہیں زیادہ آبرو مند اور کہیں زیادہ سربلند تھا۔ (جاری ہے)
تازہ ترین