آٹھ برس قبل‘ شدید خوف کے زیراثرکئے گئے فیصلے نے قائد اعظم کے پاکستان کو سرتاپا بدل کے رکھ دیا۔ معاملات پہ نگاہ رکھنے والے بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ نائن الیون کے منصوبہ سازوں نے ہی معرکہ کارگل کے تصور کی تخم ریزی کی تھی‘ انہوں نے ہی وزیراعظم اور پرویز مشرف کے درمیان تصادم کو ہوادی اور وہی تھے جنہوں نے 12 اکتوبر کے فوجی انقلاب کے لئے مشرف کی پیٹھ ٹھونکی ۔ اس وقت کی امریکن سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل انتھونی زینی کی کتاب "Battle Ready" میں اس کی واضح اشارے بھی ملتے ہیں۔مشرف نے ٹیک اوور کے بعد پہلا فون ہی انتھونی زینی کو کیا تھا اور مشن مکمل ہونے کے نوید دی تھی۔ اسے بھی محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا کہ نائن الیون سے صرف تین ماہ قبل صدر محمد رفیق تارڑ کو بھی منصب سے ہٹادیا گیا اور کوئی علامتی کردار بھی باقی نہ رہنے دیا گیا جو نائن الیون کے بعد کے ”پاکستانی کردار“ میں کوئی رکاوٹ ڈال سکتا ۔ سو جب نائن الیون کی واردات ہوئی اور ایک دن بعد 13 ستمبر کی شب پاکستان کو نیا رول سونپا گیا تو اس مملکت خداداد کی شہ رگ صرف ایک شخص کی مٹھی میں تھی جس کا نام جنرل پرویزمشرف تھا۔ وہی صدر ‘ وہی چیف ایگزیگٹو، وہی چیف آف آرمی اسٹاف اور وہی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر‘ آئین معطل پڑا تھا۔ پارلیمنٹ مفلوج ہوچکی تھی اور عدلیہ کو پی سی او کی زنجیریں ڈالی جاچکی تھیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ 1979ء کے اواخر میں کافر روسیوں کے سامنے جذبہ جہاد اورشوق شہادت کی فصیل کھڑی کرنے کی ضرورت تھی تو دو سال قبل ایک ایسا جرنیل اقتدار کلی کا مالک بن چکا تھا جو مرد مومن مردحق کے نام سے معروف ہوا۔ عین اسی طرح نائن الیون کی آڑ میں گھنی داڑھیوں ‘ بھاری پگڑیوں اور لمبی عباؤں کے ساتھ معرکہ آرائی کی ضرورت پڑی تو دو سال قبل ایک ایسا جرنیل فیصلہ کن حیثیت اختیار کرچکا تھا جس نے دو کتّے بغل میں لے کر خود کو متعارف کرایا تھا اور جو اسلامی اقدار اور جذبہٴ جہاد کے بجائے لبرل ازم اور مادر پدر آزاد روشن خیالی کا پرچم بردار تھا۔ سامراج کی چالیں بڑی باریک ہوتی ہیں۔ لیکن تیز نگاہی سے کُھرااٹھایا جائے تو بھید کھل ہی جاتا ہے۔
مشرف نے امریکہ سے ‘اپنے اقتدار کے تحفظ اور سرپرستی کی ضمانت کے سوا کچھ نہ مانگا اورپاکستان کے سارے دروازے امریکیوں پہ کھول دیئے۔ دیکھتے دیکھتے پاکستان کے خدوخال تبدیل ہوتے چلے گئے اور وہ ‘ وہ نہ رہا جو کبھی تھا۔ مشرف نے امریکہ کے سامنے سپرانداز ہونے کے بعد قوم کو بتایا کہ ایسا کرنا ناگزیر تھا ورنہ ”پتھر کے زمانے “ میں دھکیل دیا جاتا تب اہل پاکستان کو تین متوقع ثمرات کی نوید دی گئی۔
-1 ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ و مامون رہیں گے اور ہمیں باضابطہ ایٹمی قوت مان لیا جائے گا۔
-2 امریکہ بھارت پر دباؤ ڈالے گا اور مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد ملے گی۔
-3 پاکستان کی معیشت مضبوط و مستحکم ہوجائے گی۔
اس بحث سے قطع نظر کہ ان تین متوقع یا موہوم ثمرات کے عوض ہم کیا پیش کررہے تھے ‘ اس امر کا جائزہ ضرور لیا جانا چاہئے کہ ہماری امیدوں کی کھیتی کتنی ہری ہوئی اورہماے نخل آرزو پہ کتنا پھل آیا‘ ایٹمی اثاثوں کا حال نو برس پہلے سے کہیں زیادہ افسوسناک ہے۔ غریب کی خوبرو بیٹی کی طرح وہ آج بھی عالمی اوباشوں کی چوپال کا پسندیدہ موضوع ہیں۔ ہرروز ایک نیا افسانہ تراشا جارہا ہے۔ ہر داستان کا عنوان جلی یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار کسی بھی وقت ”انتہا پسندوں“کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ کنڈولیزارائس ان ہتھیاروں پر قبضہ جمانے کے ایک خفیہ پلان کی خبر بھی دے چکی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیرکا نام ‘ دشنام بنایا جاچکا ہے اور ہمارا ایٹمی پروگرام ‘ آٹھ برس پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بدزبانی اور بدنگاہی کی زد میں ہے۔ دوسرے متوقع ثمر کا احوال یہ ہے کہ کشمیر بھولی بسری کہانی بنتا جارہا ہے۔لاکھوں شہداء کے لہو سے نمو پانے والی تحریک حریت ‘ دشت تنہائی کا بگولہ بن چکی ہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔”کشمیر بنے گا پاکستان“کا نعرہ لگانے اور بھارتی قہر کے طمانچے کھانے والا سید علی گیلانی‘ ہمارے لئے مرد نامطلوب ٹھہراہے‘ پہلی بار آزادی کشمیر کی تحریک کے نورانی ماتھے پر دہشت گردی کا داغ چسپاں کردیا گیا ہے۔ جہاد کشمیر کی پرچم بردار تمام تنظیمیں دہشت گرد قرار پاکر کالعدم ٹھہری ہیں۔لائن آف کنٹرول پر دیوار تعمیر کرکے اسے مستقل سرحد سے زیادہ محترم بنادیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کا مطالبہ‘ بیسیوں بے سروپا آپشنز کی بھیڑمیں کھوگیا ہے۔ جس امریکہ کے قدموں میں سر رکھتے وقت توقع ظاہر کی گئی تھی کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارا ساتھ دے گا‘ وہ مکمل طور پر بھارت کے موقف کا ہمنوا ہوچکا ہے۔ ان آٹھ سالوں میں ہمارے مقدمہ کشمیر کو اتنا ضعف پہنچا کہ برس ہا برس تک تلافی نہ ہوسکے گی۔ہم کسی عالمی فورم پر یہ مسئلہ اٹھانے کے لائق نہیں رہے اور اگر اٹھائیں بھی تو اسلامی دنیا سمیت شاید ہی کوئی دوسرا ملک پورے عزم کے ساتھ ہمارے پہلو میں کھڑا ہو۔ ہماری اسی بے چارگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ آٹھ برس کے دوران بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے پھوٹتے دریاؤں پر چھوٹے بڑے درجنوں ڈیموں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور پاکستان کے حصے کے دریا ‘ کم آب ندیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ سری نگر پہلے سے کوسوں دور چلا گیا ہے۔
معیشت کی پائیداری واستواری کا متوقع ثمر بھی‘ جاگتی آنکھوں کا خواب ثابت ہوا۔ امریکہ کی چاکری کے عوض کچھ قرضوں کی ادائیگی میں چھوٹ مل گئی۔کچھ کے سود موخر کردیئے گئے۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے خود انکشاف کیا تھا کہ اربوں ڈالر کھلی منڈی سے خریدے گئے۔یوں زرمبادلہ کے ذخائر کا ڈرامہ تخلیق ہوا۔ بار بار کی منت سماجت کے باوجود امریکہ نے ہمیں محصولات پر کوئی چھوٹ نہ دی اور اپنی منڈی ہماری مصنوعات کے لئے نہ کھولی۔ ہماری تجارت پہلے کی طرح بلکتی رہی اور ہماری صنعت اور زراعت کے فروغ کے لئے امریکہ نے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا۔ شعوری طور پر کوشش کی گئی کہ ہمیں روزانہ کی بنیاد پر نان نفقہ دیا جاتا رہے اور ہماری معیشت خود کفالت کی مستحکم بنیادوں پرکھڑی نہ ہوسکے۔ شوکت عزیز مغربی مفادات کے نگہبان کے طور پر عالمی مالیاتی اداروں کا کھیل کھیلتا اور جعلی اعداد وشمار سے سب کو لبھاتارہا۔ حقیقت صرف اس قدر ہے کہ پاکستان کو ملنے والی امداد سے کم از کم دس گنا زیادہ نقصانات اٹھانا پڑے۔ داخلی اور خارجی قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہوا اور آج حالت یہ ہے کہ جو خارجی قرض 1999ء میں 30/ارب ڈالر کے لگ بھگ تھا‘ 52 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور آئی ایم ایف کا ہزار پایہ عفریت ہمیں پوری طرح دبوچے بیٹھا ہے۔(جاری ہے)