ایٹمی اثاثوں کے محفوظ و مامون ہوجانے اور کشمیر کاز کی سربلندی ہی کی طرح استحکام معیشت کا ”ثمر شیریں“ بھی سراب کے سوا کچھ نہ تھا اور سراب ہی نکلا۔ یہ دعویٰ سراسر ناانصافی ہوگا کہ پیپلزپارٹی کی ڈیڑھ سالہ حکمرانی نے وہ معیشت کھوکھلی کردی جو مشرف نے ایک عظیم فولادی قلعے کے طور پر ورثے میں چھوڑی تھی۔ یہ باریک پتلی جھلی والا غبارہ تھا جو پھٹ گیا۔ نائن الیون کی چاکری کا جوا گردن میں ڈالنے والے پرویز مشرف کوکیمپ ڈیوڈ بلاکر شاہی پروٹوکول دیا گیا۔ پانچ سالوں پر محیط تین ارب ڈالر کی خیرات کا اعلان کیا گیا جس کے لئے ہر سال صدر امریکہ کی طرف سے جاری ہونے والی ”نیک چلنی“ کی سند شرط لازم ٹھہری۔ اس امداد کی کہانی کسی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں۔ اب ڈیڑھ ارب ڈالر کے لئے کیری لوگر بل کا چرچا ہے جسے دباؤ کے حربے کے طور پر مسلسل التوا میں رکھا جارہا ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ صرف سترہ کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کی رقم بجٹ سپورٹ کی مد میں دے سکیں گے۔ باقی رقم کا کچھ حصہ سفارتخانے کی توسیع پر خرچ ہوگا، جو بچ رہے گی وہ حکومت کے بجائے این جی اوز اور امریکہ کے اپنے بنائے ہوئے میکانزم کے تحت خرچ کی جائے گی۔ پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے بار بار صدا لگائی جارہی ہے کہ جلدی کرو کہیں ہمارا رشتہ جاں نہ ٹوٹ جائے۔ احباب پاکستان ہماری کسمپرسی سے کھیلتے ہوئے رنگین غباروں سے بہلا رہے ہیں اور ایک اچھا بھلا ملک تماشا بنادیا گیا ہے۔ یہ اس امریکہ کا رویہ ہے جس کے لئے ہم آٹھ برس سے آگ اور بارود کی بھٹی میں جل رہے ہیں۔ جو دو حیاباختہ جنگوں پر روزانہ ساٹھ کروڑ ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ سترہ کروڑ چالیس لاکھ ڈالر اس کے صرف سات گھنٹوں کے اخراجات ہیں۔
وہ سارے ثمرات، خواب و خیال نکلے جن کا مشرف نے جھانسہ دیا تھا۔ مشرف کا یہ دعویٰ بھی غلط نکلا کہ امریکہ زیادہ دیر افغانستان میں نہیں ٹھہرے گا اور ضروری کارروائی کے بعد جلد یہاں سے چلا جائے گا۔ مشرف کی یہ یقین دہانی بھی نقش برآب ثابت ہوئی کہ شمالی اتحاد اور پاکستان دشمن عناصرکو کابل کی فرمانروائی نہیں سونپی جائے گی۔ صرف ایک بات درست نکلی کہ ملت فروشی کے عوض امریکہ نے مشرف کو طویل عرصے تک آمرانہ اور قاہرانہ حکمرانی کی چھوٹ دے دی اور آج بھی اس کے تحفظ کا ضامن اعلیٰ بنا بیٹھا ہے۔
نائن الیون کے بعد مشرف کے آٹھ سالہ عہد آمریت میں قائداعظم کا پاکستان تحلیل ہوگیا۔ اس کی جگہ ابھرنے والے مشرف کے پاکستان کے خدوخال کچھ یوں بنے کہ پہلی بار
1۔ پاکستان کسی اسلامی ملک کے خلاف لشکر کشی کرنے والی غیر مسلم افواج کا اڈہ بن گیا۔ اس وقت تک پاکستان کی چوّن سالہ تاریخ ایسی مکروہ آلائش سے پاک تھی، تب پاکستان امت مسلمہ کے قلعے کے طور پر جانا جاتا تھا۔
2 ۔ پاکستان کی بندرگاہیں، ہوائی اڈے، تنصیبات اور فضا میں ایک ایسے ہمسایہ مسلم کے خلاف امریکیوں کے تصرف میں دے دیئے گئے جس سے ہمارا کوئی جھگڑا نہ تھا اور جس سے ہم مذہی، تاریخی، جغرافیائی، ثقافتی اور روحانی رشتوں میں بندھے تھے۔
3۔ پاکستان حملہ آوروں کو نہ صرف وسائل مہیا کئے بلکہ وہ خود بھی افغانوں کی آزادی سلب کرنے اور ان کی بستیوں کو غارت کرنے والے لشکروں کا ہراول دستہ بن گیا۔ کرائے کے قاتلوں جیسا یہ متعفن کردار کسی پاکستانی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
4 ۔ دیکھتے دیکھتے ایک ہمدرد اور دوست افغانستان کلی طور پر پاکستان دشمن طاقتوں کا مورچہ بن گیا جہاں بھارتی، اسرائیلی، روسی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں نے ڈیرے ڈال لئے اور پاکستان میں عدم استحکام کی سازشیں ہونے لگیں۔
5۔پاکستان نے ریاستی طور پر بردہ فروشی اختیارکرلی۔ لوگ مٹھی بھر ڈالروں کے عوض امریکہ کے ہاتھ بیچے جانے لگے۔ عافیہ صدیقی اسی شرمناک کہانی کا ایک بے حمیت باب ہے۔
6 ۔پاکستان میں یہ مکروہ روایت چلی کہ لوگوں کو اٹھا کر غائب کردیا جائے۔سیکڑوں افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔
7۔امریکی اس حد تک دخیل ہوگئے کہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں ٹانگ اڑانے اور حکم چلانے لگے۔
8۔ پاکستان امریکہ کی ایک طفیلی ریاست بن کر رہ گیا۔ ادنیٰ درجے کے امریکی اہلکاروں کو وائسرائے کا پروٹوکول ملنے لگا۔ پیہم پاکستانی دورے معمول بن کر رہ گئے۔
9۔تواتر کے ساتھ پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزیاں روزانہ کا معمول بن گئیں اور ہمیں احتجاج کا یارا بھی نہ رہا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ امریکی جاسوسی نظام ہمارے دور اندر تک گھس چکا ہے۔
10۔ امریکی ڈرونز ہماری مسجدوں، ہمارے مدرسوں اور ہماری بستیوں پر میزائل برسانے اور بے گناہ افراد کے پرخچے اڑانے لگے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارے حکام نے انہیں اس خوں ریزی کا لائسنس دے رکھا ہے۔
11۔ پہلی بار قوم کو شعوری طور پر بے چارگی، بے بسی اور احساس کمتری سے دوچار کرکے یہ بزدلانہ سوچ ذہنوں میں بٹھا دی گئی کہ امریکہ کی فدویانہ اطاعت کے سوا ہمارے سامنے کوئی راستہ ہی نہیں۔
12۔ قومی آزادی، خودمختاری اور حاکمیت اعلیٰ کے الفاظ بے معنی ہو کر رہ گئے اور پاکستان ایک عالمی چراگاہ میں بدل دیا گیا۔
13 ۔ پاکستان اپنے سب سے قابل اعتماد دوست چین سے دور ہوگیا۔ پاکستان کا امریکی اڈہ اور امریکی مفادات کا دم چھلہ بن جانا یقینا چین کے لئے پسندیدہ پیشرفت نہیں۔
14۔ پاکستان، امریکی میرینز ، ایف بی آئی، بلیک واٹرز/زی جیسے عالمی گرگوں کی آماجگاہ بن گیا۔
15۔ پورا ملک، دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ خودکش حملوں کی نئی خونی روایت قائم ہوئی جس سے پاکستان کبھی آشنا نہ تھا۔
16۔ پاک فوج، طویل، وسیع، گہرے اور ہمہ جہت فوجی آپریشنز میں الجھ کر رہ گئی۔
17۔ پاکستان نے عملاً بھارت کی سیاسی بالادستی قبول کرلی۔ اس کی پالیسیوں میں روایتی قومی انا کے بجائے معذرت خواہانہ مداخلت نے جگہ پالی۔ بھارت نے خطے کی چوہدراہٹ حاصل کرلی ہے۔
18۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان دفاعی اور ایٹمی شعبوں سمیت دیرپا شراکت قائم ہوگئی پاکستان اور بھارت کے درمیان توازن اب بھولی بسری کہانی ہے۔
19۔ امریکہ کے پاکستان میں مورچہ زن ہوجانے سے ایران کی تشویش میں بجا طور پر اضافہ ہوگیا۔
20۔ دور دور تک اس دلدل سے نکلنے کا کوئی عزم دکھائی نہیں دیتا۔
یہ ہے مشرف کا پاکستان۔ خلاصہ یہ کہ ہم تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک پل صراط پر چل رہے ہیں۔ ذراسی لغزش پا ہماری قومی سلامتی کو کسی بڑے امتحان سے دوچار کرسکتی ہے۔کیا پاکستان کو اس دلدل سے نکالنے، اس کی آزادی و خودمختاری کو ممکنہ حد تک بحال کرنے اور اسے عالمی مفادات کی کھرلی کا چارہ بننے سے بچانے کی کوئی صورت ہے؟ (جاری ہے)