گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں میری پیدائش کے وقت ایڈولف ہٹلر جرمنی کے چانسلر بنے اور جرمنی کو دنیا کی واحد سپر پاور بنانے کیلئے پوری دنیا پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا تو جرمنی کے عظیم تمثیل نگار اور اس سے بھی بڑے شاعر برتولت بریخت نے اپنے ملک کو خیر باد کہنے اور جلاوطنی اختیار کرنے سے پہلے ایک ”لوری“ لکھی تھی۔ ایک غریب محنت کش ماں کی لوری اپنے نوزائیدہ بچے کیلئے:
جب میں نے تمہیں جنم دیا
تمہارے بھائی شوربے کیلئے رو رہے تھے
اور گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا
تم اندھیرے میں اس دنیا میں آئے تھے
کیونکہ ہم روشنی کا بل ادا نہیں کر سکتے تھے
جب تم میرے پیٹ میں تھے
میں نے تمہارے باپ کو کئی مرتبہ کہا
مگر ڈاکٹرکے مشورے کی فیس کھانے پر خرچ ہو چکی تھی
جب تم نے میرے اندر وجود پایا
ہم روزی روٹی سے مکمل طورپر مایوس ہو چکے تھے
صرف کارل مارکس اور لینن سے کچھ توقع تھی
زندگی آگے بڑھنے کی
جب میں تمہیں پیٹ میں اٹھائے پھرتی تھی
دور دور تک کوئی توقع دکھائی نہیں دیتی تھی
اکثر سوچتی تھی کس قدر بری دنیا ہے
جو میرے بچے کا انتظار کر رہی ہے
میں نے فیصلہ کیا کہ تمہیں ضائع ہونے نہ دوں
تم جس کو میں اٹھائے پھرتی ہوں
شائد اچھے بہتر دن دیکھنے والا بن سکے
کوئلے کے پہاڑ کو عبور کرتے ہوئے میں سوچتی تھی
کہ جس کوئلے پرملکیتوں کے پہرے لگے ہوئے ہیں
وہ جسے میں اٹھائے پھرتی ہوں اس کی آگ تاپے گا
اور روشنی دیکھے گا
اور پھر جب میں نے کھڑکیوں میں سجی روٹیوں کے سامنے سے
بھوکے محنت کشوں کو گزرتے دیکھا
تو سوچا کہ وہ جو میرے پیٹ میں ہے
پیٹ بھر کے کھانے کے قابل ہو گا
پھر وہ آئے اور تمہارے باپ کو لے گئے
فوجی وردی میں جنگ میں مارے جانے کیلئے
میں نے کہا وہ جو میرے پیٹ میں ہے یہ نہیں دیکھے گا
کہ کوئی اسے زبردستی لے جائے اور مار دے
اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے میں تمہیں تسلی دیتی
کہ کوئی تمہارا راستہ نہیں روکے گا
میں نے تمہیں پیدا کیا جب جنم دینا ایک خطرناک عمل تھا
بہت جرات کا کام تھا کسی کو پالنا
اور حالات سے کبھی نہ ختم ہونے والی لڑائی جاری رکھنا
بوڑھے قصائی اور اس کے سارے کپتانوں نے ناکامی کامنہ دیکھا ہو گا
جب النگنی پر چند چڈیاں سوکھ رہی ہوں گی
اور جیتنے والے جیت گئے ہونگے
ہاں روٹی اور دودھ حاصل کرنا فتوحات میں شامل ہے
اورٹھنڈے یخ کمروں میں تھوڑی سی گرمی بھی
تمہیں پورا مرد بنانے کیلئے میری زندگی کے سارے دن رات خرچ ہونگے
روٹی کاایک ٹکڑا تمہارے منہ میں ڈالنے کیلئے
دشمنوں کی صفوں کو چیرنا ہو گا
جرنیلو ں کو شکست دینا ہو گی
ان کے ٹینکوں اور بندوقوں سے بچنا ہو گا
جب تم بڑے ہوئے تو میں نے ایک اور بچے کا خیال کیا
جو تمہاری جدوجہد میں شامل ہو گا
اور فتح کا پرچم لہرائے گا
میرے بچے تم نے جو کچھ کرنا ہے یا کرنا چاہو گے
ان کی لمبی قطاریں ہونگی ان کاموں کو رکوانے کیلئے
کیونکہ ساری دنیا میں تمہاری جگہ بہت تھوڑی سی ہو گی
جہاں کچرا پھینکا جاتا ہے؟ وہ بھی کسی کو دیدی گئی ہوگی
میرے بچے سنو تمہاری ماں تمہیں کیا کہتی ہے
زندگی نے تمہارے لئے جو جگہ رکھی ہے وہ طاعون سے بھی بری ہے
مگر یہ نہ سمجھنا کہ میں نے تمہیں اس لئے جنم دیا ہے
کہ تم سب کچھ برداشت کرو اور مزید دکھ مانگو
میں نہیں کہتی کہ تم کسی خاص چیز کے بنے ہو
میں تمہاری ضرورتیں پوری نہیں کر سکتی
مگر امید کرتی ہوں اور یہ امید تم سے وابستہ ہے
کہ تم روز گار کے دفتر کے باہر بوڑھے نہیں ہو جاؤ گے
رات کو جب لیٹتی ہوں تو نیند نہیں آتی
کروٹ بدل کر تمہارا ہاتھ چھوتی ہوں
سمجھ نہیں آتا کہ تمہیں جھوٹ کے اندر سے سچ کیسے دکھاؤں
جانتی ہوں انہوں نے جنگ میں مارے جانے والوں کو
تمہارا نمبر بھی لکھ رکھا ہو گا
تمہاری ماں نے میرے بچے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ
تم کسی خاص بیٹی کے خاص بیٹے ہو
مگر اس نے تمہارا پیدائش کا دکھ اس لئے بھی برداشت نہیں کیا
کہ تم پیاس کیلئے روتے ہوئے خاردار تار پر لٹک جاؤ
میرے بچے اپنے لوگوں کے قریب، ان کے ساتھ رہو
تاکہ تمہاری طاقت، دھول کی طرح دور دور پھیل سکے
تم میرے بچے اور سب لوگو ہمیشہ اکٹھے رہو اس وقت تک
جب تک انسانی نسل کو طبقات میں تبدیل کرنے والا نظام ختم نہیں ہوجاتا۔