وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو داخلی خود مختاری دیتے ہوئے وہاں قانون ساز اسمبلی گورنر، وزیراعلیٰ، الیکشن کمشنر، آڈیٹر جنرل ، پبلک سروس کمیشن اور چیف کورٹ دینے کے فیصلے کا اعلان کیا ہے۔ اس علاقے کو صوبہ بنانے کی تجاویز پی پی پی کے سابقہ دور میں بھی سامنے آئیں لیکن آزاد کشمیر کی لیڈر شپ کے دباؤ کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا تھا جبکہ اب تو یہ محض ایک آرڈی نینس کے تحت کیا گیا ہے جبکہ آئین میں ترمیم کے بغیر ایسا قطعی ممکن نہیں ہے۔
گلگت بلتستان کے لوگ 1954ء تک اپنے ڈومیسائل مظفر آباد سے حاصل کرتے رہے ہیں اور ریاستی ہونے کے ناتے دونوں طرف کے عوام میں بھرپور رابطے، رشتہ داریاں اور ہم آہنگی ہمیشہ سے موجود رہی ہے مسلم کانفرنس کے بانی قائد رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس نے 1954ء میں اس سارے علاقے کا تاریخی دورہ کیا تھا لیکن وزارت امور کشمیر میں نواب مشتاق گورمانی ہوں یا حنیف خان، مہتاب عباسی ہوں یا نئے غیر ریاستی گورنر قمر زمان کائرہ۔ سبھی کا مقصود آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کو ڈرا دھمکا کر شمالی علاقوں سے کوسوں دور رکھنا رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ گلگت بلتستان روز اول سے ریاست جموں و کشمیر کا اہم حصہ اور ناقابل تقسیم اکائی ہے۔ 1846ء کے معاہدہ کے مطابق دریائے سندھ کے بائیں کنارے سے لیکر دریائے چناب کے دائیں کنارے تک کا سارا علاقہ ریاست جموں و کشمیر میں شامل ہے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے دریائے سندھ کو عبور کرکے اس علاقے کو جدید جموں و کشمیر میں شامل کیا تھا اور برصغیر کے حکمرانوں نے اس کی حاکمیت کو تسلیم کیا۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ 1935ء میں انگریز حکمران نے مہاراجہ کے ساتھ 60 سالہ معاہدہ امرتسر کیا کیونکہ اس وقت روس اور چین سے شمالی علاقوں کی طرف سے کمیونسٹ یلغار کے خطرات موجود تھے جس کی وجہ سے انگریز اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے شمالی علاقوں کے تمام بلند و بالا پہاڑی راستوں اور دروں کو تنگ کردیا تھا تاکہ دوسری طرف سے کوئی بآسانی ان علاقوں میں داخل نہ ہو سکے۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے 11/ اگست 1947ء کو 60 سالہ معاہدہ ختم کرتے ہوئے اپنے ماموں بریگیڈیئر گنسارہ سنگھ کو قمر زمان کائرہ کی طرح گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کیا تھا۔ بھمبر کے معروف کمشنر ریٹائرڈ راجہ مقصود خان کے والد محترم راجہ نور علی خان اس دوران وہاں تحصیل دار تعینات رہے۔ 1947ء میں جب جہاد آزادی کشمیر کا آغاز ہوا تو گلگت بلتستان کے عوام بھی اپنے علاقے کی آزادی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور فخر کشمیر کرنل حسن مرزا کی قیادت میں عملی جہاد کے ذریعے گلگت بلتستان کا یہ علاقہ آزاد ہوا اور گورنر گنسارہ سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
5 فروری 1949ء کو معاہدہ کراچی کے تحت اس علاقے کا عارضی انتظام حکومت پاکستان کے سپرد کیا گیا وہ معاہدہ اب اپنی مدت ختم کر چکا ہے معاہدہ کراچی پر آزاد کشمیر کے بانی صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان مرحوم نے دستخط فرمائے تھے۔انگریز برصغیر کی تقسیم کے بعد تو چلے گئے لیکن وہ اپنی ایک خاص نشانی ”شہزادہ کوٹھی راولپنڈی“ میں چھوڑ گئے تھے جس میں نصف صدی سے زائد عرصہ تک کشمیریوں کی تقدیر کے ناخدا من پسند فیصلے کرتے رہے۔ نواب مشتاق گورمانی اس وقت وزیر امور کشمیر تھے اور کشمیری قیادت کو حیلے بہانوں سے آپس میں لڑایا جاتا رہا۔ خود مختار کشمیر کے نعرے کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی الحاق پاکستان کے حامیوں کو پابند سلاسل کیا گیا ایک صدرکو اتار کر دوسرے کے ساتھ ساز باز کی جاتی رہی۔ بلی چوہے کا یہ ناپسندیدہ کھیل مدتوں کھیلا گیا تاآنکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء کی دہائی میں ریاست کے دو اہم سیاستدانوں سردار محمد ابراہیم خان اور کے ایچ خورشید کو پیپلزپارٹی میں ہی شامل کرکے دم لیا۔ اس دوران آزاد کشمیر کو بھی صوبہ بنانے کی کوششیں کی گئی جو بوجوہ ناکام ہوئیں اسی روز سے آزاد کشمیر کے انتخابات اور کاروبار حکومت میں وفاق کی بے جا مداخلت کا ایسا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے اور مہاجرین مقیم پاکستان کی بارہ نشستوں پر من مانی اور پسند و ناپسندید کا نہ ختم ہونے والا کھیل ہر ایک حکومت کا معمول بن چکا ہے کئی بار ان بارہ نشستوں اور کشمیریوں کے دہرے ووٹ کے حق کو ختم کرنے کے حربے بھی آزمائے گئے لیکن ابھی تک افتاں خیزاں یہ معاملات چل رہے ہیں۔
گلگت بلتستان میں گورنر اور وزیراعلیٰ کے عہدے دے کر یہ کہنا کہ اسے مکمل صوبائی حیثیت نہیں دی گئی یہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ خوفناک اور بے ہودہ مذاق ہے۔ پھر ایک غیر ریاستی شخص کو گورنر مقرر کرنا بذات خود ڈوگرہ راج کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ اس عمل سے تنازع کشمیر کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے کھلا انحراف ہے اس فیصلے کا مجموعی طور فائدہ بھارت کو پہنچے گا۔ جس طرح بھارت نے مقبوضہ کشمیر اور لداخ میں نام نہاد خود مختاری کے نام پر اہل کشمیر کو یرغمال بنا رکھا ہے یہ نیا فیصلہ بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے آئین کی دفعہ 257 میں ان تمام امور کی واضح اور ڈو ٹوک نشاندہی کی گئی ہے جس سے انحراف کرنا بہت بڑی خلاف ورزی ہے۔ یوں بھی یہ فیصلہ سابق صدر پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کا حصہ ہے اور اس پر عملدرآمد مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈال سکتا ہے۔ نئے فیصلے کے بعد بھارت اور پاکستان عالمی سطح پر یکساں حیثیت میں آچکے ہیں۔ قبل ازیں عالمی اداروں اور فورمز پر پاکستان کو جو خاص ایج حاصل تھا وہ اب ختم ہو جائے گا۔
آزاد کشمیر کے سیاستدانوں نے گلگت بلتستان کی سیاسی حیثیت کو تبدیل کرنے کے فیصلے کو مسئلہ کشمیر کے مغائر قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے سابق صدر و وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان اور سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان نے وفاقی حکومت کے فیصلے پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے بھارت کے مفاد میں قرار دیا ہے۔ سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ آئین میں ترمیم کے بغیر گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بنایا جا سکتا۔ صدر ریاست راجہ ذوالقرنین خان سابق صدر آزاد کشمیر جنرل (ر) محمد انور خان، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم خان، جماعت اسلامی کے امیر عبدالرشید ترابی اور لبریشن لیگ کے صدر جسٹس (ر) عبدالمجید ملک نے وزارت خارجہ میں بریفنگ کے دوران جس جرأت مندانہ اور دو ٹوک موقف کا اظہار کیا ہے اس پر آزاد کشمیر کے عوام ان کے بیحد شکر گزار ہیں۔ تاہم اس بارے میں حریت کانفرنس کی قیادت اور نمائندوں کا موقف بے حد مایوس کن سامنے آیا ہے شاید ان کے سامنے کوئی مصلحت آڑے آگئی ہو۔
اہل کشمیر میں اس فیصلے کے بعد بڑی مایوسی اور بے چینی سامنے آرہی ہے کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کے رد عمل کے بعد آزاد کشمیر کی باری ہے جبکہ ایسی کوئی ناقابل تسلیم مشق آزاد کشمیر میں کی گئی تو اس کا رد عمل ناقابل تصور حد تک خطرناک ہو گا۔ آزاد کشمیر اور پاکستان کے عوام دکھ درد کو سانجے جذبوں سے بانٹتے رہے ہیں ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ جموں و کشمیر مکمل آزاد ہو کر تکمیل پاکستان کا باعث بنے جبکہ اہل کشمیر 6 دہائیوں سے الحاق پاکستان کے لئے قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں پاکستان فکری، جغرافیائی، عددی اور لفظی طور پرکشمیر کے بغیر ادھورا اور نامکمل ہے جس میں گلگت بلتستان بھی شامل ہیں یہ تعلق دیکھا جائے تو بے حد حساس اور انمٹ ہے لیکن اسے حکومتی فیصلوں کے ذریعے مجروح کرنے کی مشق قطعاً نہیں کی جانی چاہئے۔ اس سے کشمیریوں کے دلوں میں دراڑیں پیدا ہوں گی اور ان کے سچے اور پاکیزہ جذبوں کو ٹھیس پہنچے گی۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین صدر مملکت آصف علی زرداری کو اس فیصلے پر بہر حال نظر ثانی کرنی چاہئے کیونکہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی آزادی کے لئے ہزار سال لڑنے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا موقف بھی ہمیشہ جرأت مندانہ اور اہل کشمیر کی خواہشات سے ہم آہنگ رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ گلگت بلتستان میں گورنر اور وزیراعلیٰ کے بجائے وہاں بھی آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے تاکہ مسئلہ کشمیر پر کوئی گزند نہ پہنچے اور پاکستان کے دیرینہ قومی موقف پر بھی کوئی کاری ضرب نہ آئے۔
گلگت بلتستان کے نئے متنازع آئینی پیکیج سے تقسیم کشمیر کی بو آرہی ہے اور کشمیر کے بٹوارے کا فیصلہ کوئی ذی شعوری کشمیری کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ اہل پاکستان اور کشمیریوں نے کشمیر کی مکمل آزادی اور الحاق پاکستان کی طویل اور بے حد کٹھن جدوجہد میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور مشکلات سہی ہیں جبکہ کشمیر کی تقسیم کا کوئی فارمولا ملک پاکستان اور اہل پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو سکتا۔ اہل کشمیر کو مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف سے توقع ہے کہ وہ پہلے کی طرح اہل کشمیر کو مایوس نہیں کریں گے کیونکہ انہوں نے ہر مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دیا ہے اور وہ اس نزعی معاملہ پر ضرور توجہ فرمائیں گے۔ گلگت بلتستان کو نیا صوبہ بنانے کے فیصلے کے منفی اثرات ریاست بہاولپور اور ریاست پونچھ کی بحالی اور سرائیکی صوبہ و گریٹر بلوچستان کے قیام کی تحریکوں پر بھی پڑ سکتی ہے۔ پی پی پی کی قیادت کو اس اہم اور متنازع معاملے پر بہر صورت نظر ثانی کرنی چاہئے ورنہ تقسیم کشمیر کی سازشیں کرنے کا الزام پیپلزپارٹی پرآئے گا اور اس کی وجہ سے ان کی حکومت اور سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔