پاکستان اور ایران تاریخی، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں بندھی ہمسایہ ریاستیں ہیں۔ 1947میں وطن عزیز ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا تو اسے سب سے پہلے ایران نے تسلیم کیا۔ پاکستان کے دورے پر آنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ بھی شہنشاہ ایران تھے۔ ایران کیلئے پہلے پاکستانی سفیر راجہ غضنفر علی خان کو روانہ کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا: ’’تم ایک ایسے ملک میں جا رہے ہو جس کے ساتھ ہمارے تعلقات دنیا بھر میں سب سے زیادہ دوستانہ ہیں۔‘‘ 1965 اور 1971 کی پاک۔بھارت جنگوں میں بھی ایران کا جھکائو پاکستان کی طرف رہا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گرم جوشی میں کمی آنا شروع ہو گئی اور پھر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ متعدد بار الزام آیا کہ دہشت گردوں نے پاکستان کی حدود کے اندر ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ جہاں سے وہ ایران پر حملے کرتے ہیں اور ان وارداتوں میں بہت سے ایرانی سرحدی گارڈز جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مئی 2017 میں گیارہ گارڈز کی ہلاکت کے بعد تو ایرانی ردعمل بے حد شدید تھا۔ آرمی چیف جنرل محمد حسین باقری نے دھمکی دی کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی نہ کی، تو ایران انہیں نشانہ بنائے گا اور تباہ کردے گا۔ 19جون 2017 کو پاک۔ایران سرحد پر ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ پاکستان ایئرفورس نے بلوچستان کے ضلع پنجگور میں ایک ’’بے نام و نشان اور بے اطلاع‘‘ ڈرون مار گرایا جس کا ملبہ پاکستانی سرحد کے 3/4کلو میٹر اندر گرا۔ مذکورہ ڈرون ایران سے آیا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایرانی ڈرون پاکستانی حدود کے اندر کیا کر رہاتھا؟
پریشانی کی بات یہ کہ اس علاقے میں CPEC سے متعلق ایکٹویٹی زوروں پر ہے تو کیا ایرانی ڈرون ان کی ٹوہ میں تھا؟ کیا اس کے پیچھے کوئی بھارتی سازش پنہاں تھی یا پھر یہ کسی دوسرے کلبھوشن یادیو کا کارنامہ تھا؟ بعض حلقے اس واقعہ کو گوادر۔ چابہار چپقلش کے ساتھ بھی جوڑتے ہیں۔ کہ انڈیا گوادر کے مقابلے میں ایرانی بندرگاہ چابہار کو ڈیولپ کرنا چاہتا ہے تاکہ ایران کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کرسکے۔ مگر ایسے تجزیہ نگاروں اور سفارت کاروں کی بھی کمی نہیں جن کے نزدیک چابہار کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے بھارت کبھی بھی پرجوش نہیں رہا۔ چابہار کی اپ گریڈیشن کیلئے 500 ملین ڈالر کی بھارتی پیشکش کا چرچا تو بہت ہوا مگر یہ محض یک طرفہ قسم کی کاغذی کارروائی تھی جس پر ایران نے کسی قسم کے جوش و جذبہ کا اظہار نہیں کیا تھا۔ چابہار کی اپ گریڈیشن بے شک ایران کیلئے بے پناہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ملک بھرمیں گہرے پانیوں والی یہ واحد بندرگاہ ہے جس کی صلاحیت بڑھانے کیلئے امریکی پابندیوں کے باوجود ایران پہلے ہی 400ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ فی الحقیقت ایران کسی اور کو شامل کئے بغیر بے پناہ تزویری اور اقتصادی اہمیت کی حامل اس بندرگاہ کو اپنے وسائل سے ڈیولپ کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی نیم پختہ قسم کی پیشکش کے مخالفین کی ایران کے اندر ایک مضبوط لابی موجود ہے جن کا کہنا ہے کہ بھارت کی تمام تر منصوبہ بندی ذاتی مفاد کیلئے ہے اور ایران کو وہ محض استعمال کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کی اجازت نہ ملنے کے بعد اب وہ ایران کے راستے خطے کو اوپن اپ کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں محض چند ملین ڈالر کے بدلے چابہار جیسی اہم بندرگاہ پلیٹ میں رکھ کر بھارت کو پیش نہیں کی جا سکتی۔
بعض مبصرین کے نزدیک گوادر کی طرح چابہار میں بھی چین دلچسپی لیتا دکھائی دیتا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ اس ایرانی بندرگاہ کی اپ گریڈیشن میں بیجنگ کی سرمایہ کاری نئی دہلی کو بہت پیچھے چھوڑ جائے۔ ان کا تھیسس یہ ہے کہ اکنامک کاریڈور اور اس کے تعلقات کی کامیاب تعمیر و تکمیل کے بعد چین دائیں بائیں ضرور دیکھے گا اور اس نوعیت کے چھوٹے موٹے پروجیکٹ اس کیلئے چنداں دشوار نہیں ہوں گے۔ افغانستان اور ایران کو اکنامک کاریڈور سے جوڑنا اور چابہار کی اپ گریڈیشن ایک فطری عمل کے طور پر دیوار پر لکھا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے امکانات یوں بھی روشن ہیں کہ ایرانی صدر حسن روحانی ستمبر 2016 میں دورہ پاکستان کے دوران CPEC میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔ جسے چینی قیادت نے سراہا تھا اور اس کی تائید اسلام آباد میں متعین ایرانی سفیر مہدی نہرووست نے جنوری 2017 میں یہ کہہ کر کی تھی کہ ان کا ملک اپنی تمام تر صلاحیتوں اور امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے CPEC کا حصہ بننا چاہے گا۔
پس چہ باید کرد؟ ایک ثقہ اور سیانے سفارت کار کا خیال ہے کہ پاک۔ایران ’’تنازعہ‘‘ روایتی سفارتی طریق کار کے تحت حل ہونے والا نہیں۔ اس کے لئے ہارٹ ٹو ہارٹ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے اور بہت سے taboosپر، جن کا ہم سرسری ذکر بھی نہیں کرتے، کھل کر مباحث کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ دونوں ملکوں کے درمیان بارڈر مینجمنٹ بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔ طویل اور دشوار گزار ہونے کے ساتھ ساتھ پاک۔ ایران سرحد کے دونوں جانب بدامنی اور بدانتظامی کا دور دورہ ہے جہاں کوسوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں، جہاں اسمگلر بھی رہتے ہیں اور اپنی اپنی حکومتوں کے باغی بھی، اور جہاں سے بعض دیدہ/ نادیدہ تھرڈ کنٹری فورسز بھی آپریٹ کرتی ہیں۔ انسانی اسمگلرز کیلئے بھی یہ ایک پسندیدہ گزر گاہ ہے۔ ایسے میں فریقین کو مل بیٹھ کر موثر قسم کا میکانزم تیار کرنا ہوگا۔ الٹی سیدھی، ادھوری معلومات کی بجائے انٹلیجنس پر مبنی خفیہ معلومات کے تیز تر تبادلے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت اور موثر کارروائی کی جا سکے۔ اس میں شک نہیں کہ ایران کے حوالے سے پاکستان اسلامی اخوت، رواداری اور بردباری کے روشن اصولوں سے رہنمائی حاصل کرتا آیا ہے۔ کلبھوش یادیو جیسے سنگین معاملےمیں بھی ان اصولوں کی پاسداری کی گئی۔ اس کے باوجود ایران کے اگر کچھ تحفظات ہیں، تو پاکستان کو انہیں ایڈریس کرنے میں متردد نہیں ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر پاکستان کی عرب ورلڈ اور مڈل ایسٹ پالیسی کو ایران میں بوجوہ تشویش کی نظر سے دیکھاجاتا ہے۔ 39 ریاستی مسلم اتحاد میں پاکستان کی شمولیت نے بھی وہاں خوشگوار تاثر نہیں چھوڑا۔ ہفت ریاستی قطر مخالف اتحاد میں بھی پاکستان کے کردار کو تہران میں چنداں پذیرائی نہیں ملی۔ چند ہفتے پیشتر 20 ہزار پاکستانی گروپس کو قطر بھیجنے کی بے سروپا غیر ملکی میڈیا رپورٹس نے بھی ایران کو پریشان کیا تھا۔ مزید برآں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی اسلامک ملٹری الائنس کی کمانڈ کا معاملہ بھی دونوں ملکوں کے مابین غلط فہمیوں میں اضافہ کا سبب بنا ہے۔ اس سے غرض نہیں کہ یہ مسائل حقیقی ہیں یا تصوراتی، ان پر سنجیدہ مذاکرات دونوں برادر ملکوں کے حق میں ہیں۔ کیونکہ تصادم تو دور کی بات ہم تو تنائو کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے۔ اس ضمن میں ایک اہم پیشرفت یہ کہ ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای نے عید کے موقع پر تہران میں ایک اجتماع سے خطاب میں کہا کہ کشمیر سمیت مسلمان دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی ظلم و بربریت کے خلاف لڑ رہے ہیں، عالم اسلام کا فرض بنتا ہے کہ ان کی مدد کو پہنچیں اور غاصبوں کے خلاف جہاد کریں۔ ایک مدت بعد ایران نے یوں کھل کر کشمیریوں کی حمایت کی ہے جو بلاشبہ ایک اہم ڈیولپمنٹ ہے اور پاکستان کو اس کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔