مغلیہ دور کی شان و شوکت کے امانتدار تاریخی دروازوں والے حفاظتی حصاروں میں گھرے ہوئے اندرونی شہر لاہور کو مدفون شہر لاہور ابھی کہاجا سکتا ہے کیونکہ صدیوں کے تاریخی ورثے کا لازمی حصہ قرار دی جانے والی ہزاروں عمارتوں کا یہ شہر غفلت، ناقدری، جہالت، کرپشن اور کمرشل ازم کے ملبے میں دفن ہوچکا ہے۔ چند روز پہلے لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان کے احاطہ میں ”شاہی حمام“ کی ایک پریس بریفنگ میں اندرونی شہر لاہور کی بحالی کے سیکرٹری انچارج اوریا مقبول جان اور آغا خان کلچرل سروس پاکستان کے سربراہ اور ممتاز ماہر تعمیرات مسعود احمد نے جو اچھے وقتوں کی معروف ٹیلیویژن پروڈیوسر تنویر مسعود کے شوہر ہونے کی وجہ سے مسعود تنویر بھی کہلاتے ہیں،لاہور کے مغلیہ دور کی عظمت رفتہ کو ممکن حد تک بحال کرنے کی قومی، صوبائی اور عالمی اداروں کی مشترکہ کوششوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی۔
1948ء کی مردم شماری کے مطابق اڑھائی مربع کلو میٹرز کو احاطہ کرنے والے اندرون شہر لاہور کی آبادی ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ تھی مگر اس آبادی میں تاریخی اہمیت کی ایک ہزار چار سو بیالیس عمارتیں ہیں جن میں سے 647عمارتیں کسی حد تک زندہ حالت میں پائی جاتی ہیں۔ پریس بریفنگ میں بتایا گیا کہ اگلے بیس سالوں کے اندر اندر لاہور شہر کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی عملی کوششوں کے ثبوت مہیا کئے جاسکیں گے اور خاص طور پر آزادی وطن اور تحریک پاکستان میں نمایاں مقام رکھنے والے اقبال پارک کو ملک کی سب سے بڑی سیرگاہ کا درجہ دے دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مسجد وزیر خاں اور دہلی دروازے کی شاہی گز رگاہ کو اس کی اصل قدیم حالت میں بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
یقینا یہ بہت ہی مشکل کام دکھائی دیتا ہے کہ شہر لاہور کو شہر لاہور سے واگزار کرایا جائے۔ لاہور شہر کی موجودہ حالت کے اندر سے لاہور شہر کو دریافت کیاجائے۔ بلاشبہ یہ شیر کے منہ سے بوٹی چھیننے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے مگر اوریا مقبول جان اور مسعود احمد کے جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے اور ان کی کارکردگیوں کی سابقہ شہرت کو سامنے رکھتے ہوئے صرف توقع ہی نہیں یقین بھی کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے فرائض سرانجام دینے میں کامیاب ہوں گے مگر ان کی پریس بریفنگ کے دوران یہ خیال مجھے مسلسل اور متواتر تنگ کرتا رہا کہ لاہور کے پرانے محصور یا مدفون شہر کو تو دریافت یا واگزار کیا جاسکے گا لیکن ہمیں اور ہمارے بچوں کو اور آنے والی نسلوں کو وہ ملک اور معاشرہ کب اور کیسے واپس دلایا جا سکے گا جس میں بچے کسی خوف اور خطرے کے بغیر تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنی درسگاہوں کو جاتے اور واپس اپنے گھروں میں آتے تھے۔
وطن عزیز کے ان حالات کو کیسے اور کب واپس لایا جاسکے گا جن میں مسجدوں اور امام بارگاہوں میں عبادت کرنے والوں کو مسلح پہریداروں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ وہ شہریت خطرات سے کب آزاد ہوگی جس کے گھروں کے دروازے کھلے ہوتے تھے اور لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں دستک دیئے بغیر داخل ہوسکتے تھے۔ شہروں کی وہ گلیاں کب اور کیسے بحال ہوں گی جن میں لوگ رات کو سکھ کی چادریں تان کر گہری نیند سوتے تھے اور کسی کو کسی قسم کا کو ئی خطرہ نہیں ہوتا تھا۔
مغلیہ دور کی شان و شوکت والے لاہور کی دریافت سے زیادہ ضروری جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے پہلے کے پاکستان، اس کی معاشرت اور معیشت، تہذیب و تمدن کو دریافت اور بحال کرنے کی ضرورت ہوسکتی ہے مگر ہم تو جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ غاصبانہ سے پہلے کے حالات کی بحالی کی توقع بھی نہیں کرسکتے کیونکہ وطن عزیز اور اس کے لوگوں کو جن سنگین مسائل اور حالات کا سامنا ہے ان کی پرورش ہمارے حکمرانوں اور ان کے طبقے نے گزشتہ ساٹھ باسٹھ سالوں کی مسلسل اور متواتر سازشوں کے ذریعے کی ہے اور ان سازشوں میں ہمارے حکمران طبقے کو ان تمام عناصر کا عملی تعاون حاصل تھا جو اس ملک کے قیام کی تحریک (تحریک پاکستان) کی سرتوڑ مخالفت کر رہے تھے مگر اس وقت کامیاب نہیں ہوسکے تھے مگر اب انہوں نے اس ملک کی سڑکوں پر پے در پہے رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں اور ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ جن میں ہوٹلوں کے اندر گاڑیاں نہیں جاسکتیں اور ہر شخص یہ اندیشہ اور خطرہ محسوس کرتا ہے کہ؟
”یہیں کہیں کوئی خنجر مری تلاش میں ہے“
خوف، خطرے اور اندیشوں سے پاک معاشرتی زندگی والا پاکستان کب اور کیسیبحال کرایا جاسکے گا؟ اندیشوں اور خطروں میں گھرے ہوئے پاکستان کے خوف زدہ شہری مغلیہ دور کی شان و شوکت سے سجے ہوئے ”اقبال پارک“ کی سیر گاہ سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے۔