اس سلسلہ تحریر کے آغاز میں یہ بیان کر نا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تاکہ ہر پڑھنے والا زیرِ نظر تحریر کے اصل پس منظر اور اس کی غرض و غایت سے بخوبی واقف ہو کرمتذکرہ موضوع کی صحیح اہمیت کا اندازہ کر سکے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ جب سے ملّتِ اسلامیہ عالمی سطح پر ہمہ گیر زوال سے دوچار ہوئی ہے ہر میدان میں اس کی فکری اور عملی سمتیں اپنے اصل مر کز سے ہٹ گئی ہیں اور اگر کسی وقت احساسِ زیاں کا کچھ شعور رکھنے والے افراد کی طرف سے ملّیِ سطح پر اس ہمہ گیر فکری اور عملی بگاڑ کی جزوی اصلاح کی کوششیں ہوئی بھی ہیں تو یہ کماحقہ ، کارگر نہیں ہو سکیں کیو نکہ ان میں سے اکثر میں کوئی نہ کوئی ایسی کمی ضرور رہ گئی ہے جس کے نتیجے میں اصلاح احوال کے بجائے مزید الجھنیں پیدا ہوئی ہیں اور عوام کی رہی سہی اُمیدیں بھی غم ویاس میں بدلتی چلی گئی ہیں اور صورتِ حالات کچھ یوں نظر آرہی ہے کہ ” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی “ ۔
اس وقت ہماری بحث کسی اور مسئلے سے نہیں بلکہ اپنی توجہ کو صرف اس امرپر مر کوز کر نا ہے کہ# جب زوال پذیر عالمِ اسلام میں مذہبی و روحانی اقدار تنزل کا شکار ہوگئیں ۔# اسلامی عقائد و اعمال محض مردہ رسوم میں بدل کر عملی تاثیر کھو بیٹھے۔# مسلمانوں کا مستقبل میں اپنے احیاء کی نسبت اعتماد کلیتہ ً ختم ہوگیا۔#آئندہ کے لیے اسلام کے قابل عمل ہونے کا تصور دھندلا گیا۔# دورِ انحطاط میں اسلام کی حتمی وقطعی نتیجہ خیزی کا یقین شکستہ ہوگیا۔# مسلم معاشرے میں ایمانی حقائق اور روحانی اقدار کی جگہ مادہ پرستی نے لے لی ۔#مذہب سماجی زندگی سے کٹ کر محض آخرت کی الجھنوں کا مداوا رہ گیا ۔#اسلامی وحدت کا شیرازہ جغرافیائی ، نسلی ، لسانی، طبقاتی ، گروہی اور فر قہ وارانہ وفاداریوں کے باعث منتشر ہوگیا۔اسلام کے مذہبی ۔ سیاسی ، معاشی ، عمرانی ، ثقافتی اور تعلیمی ادارے جو سراسر تخلیق وانقلاب کے آئینہ دار تھے کلی طور پر جمودو تعطل کی لپیٹ میں آگئے ۔ #بچے کچھے اور منتشر مسلمان اسلام کی عالم گیر فتح کی خاطر مثبت انقلابی پیش قد می کے بجائے اپنے وجود کی حفاظت اور دفاع کوہی اصل زندگی اور آخری مطمع نظر سمجھنے لگے۔
تو استعماری قوتیں اس تغیر پر مطمئن بھی ہوئیں اور اس تغیر کے نتائج و مضمرات کو ہمیشہ کے لیے ملّت اسلامیہ پر باقی رکھنے کی ترکیب بھی سوچنے لگیں کہ اگر اسلام کے دامن میں کوئی ایسی نقلاب انگیز قوّت موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے مسلم قوم مذکورہ بالا تمام تر خامیوں اور کوتا ہیوں کے باجود کسی وقت بھی اپنی عظمتِ رفتہ کے حصول کے لیے تن من دھن کی بازی لگاسکتی ہے تو اسی قوت کا سراغ لگا کر اس کے خاتمے کا موثر اہتمام کیا جائے تا کہ عالم اسلام اس ذلّت وپستی کی حالت سے کبھی بھی نجات نہ پاسکے کیو نکہ اسی میں تمام طاغوتی اور مادّی قوتوں کی عافیت تھی اسلام کی وہ عظیم انقلابی قوت جس سے عالم طاغوت لزرہ بر اندامِ تھا عشق رسول ﷺ تھی اور اسی سے مسلمانوں کی مذہبی و روحانی زندگی روزِ اوّل سے آج تک وابستہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں بارہا سیاسی تغیرات کے باوجود مسلمانوں کا مذہبی و روحانی نظام زوال پذیر نہ ہو سکا بلکہ اس کے ارتقاء کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ کیونکہ صوفیائے اسلام کی پیہم تبلیغی مساعی نے ہر دور میں مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسالت مآب ﷺ کی وہ شمع فروزاں رکھی جس میں ہماری ملّی حیات کی بقاء کی ضمانت موجود تھی۔
ایک مشہور مغربی مورخ پروفیسر ہٹی بیان کر تے ہیں کہ ” اکثر ایسا ہوا کہ سیاسی اسلام کے تاریک ترین لمحات میں مذہبی اسلام نے بعض نہایت شاندار کامیابیاں حا صل کیں“
ہالینڈ کے ایک فاضل لو کے گارد“ نے دبے الفاظ میں اس بات پر استعجاب کا اظہار کیا ہے کہ گو اسلام کا سیاسی زوال تو بارہا ہوا لیکن روحانی اسلام میں ترقی کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ۔ انہی اسباب کا تجزیہ کر تے ہوئے انگلستان کے ایک مشہور ذی علم مستشرق پروفیسر ایچ اے گب نے بیان کیا ہے کہ ” تاریخِ اسلام میں بار ہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا ہے لیکن باایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہوسکا اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ صوفیاء کا انداز فکر فوراً اسکی مدد کو آجاتا تھا اور اس کو اتنی قوت و توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی“۔
یہ حقیقت ہے کہ صوفیاء کی تعلیم اور ان کا فکر عشقِ رسالت مآب ﷺ سے کس قدر لبریز ہے کسی بھی اہلِ علم پر مخفی نہیں۔ عشقِ مصطفےٰ ﷺسے لبریز اسی فکر کی نمائندگی کر تے ہوئے علامہ اقبال فر ماتے ہیں
ہر کہ عشقِ مصطفےٰ سامانِ اوست
بحروبردر گوشہ دامانِ اوست
ایک اور مقام پربارگاہ رسالت مآبﷺ میں اس طرح عرض پرداز ہیں کہ عشق و مستی کے ہزاروں قلزم ایک شعر میں محصور نظر آتے ہیں
ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
اسی مضمون کو اُردو میں علامہ اس طرح بیان فر ماتے ہیں #
نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن وہی فر قاں وہی یٰسین وہی طہٰ
نہ صرف یہ کہ علامہ نے اُمّتِ محمّدیﷺ کوذاتِ محمدّی ﷺسے والہانہ پیغام دیا بلکہ اسی عشق ِ رسالت اور نسبت محمدیﷺ کو ملت ِ اسلامیہ کی بقاودوام کا راز بھی قرار دیا اور یہی وہ انقلاب انگیز قوت تھی جس سے سامراجی و طاغوتی طاقتیں خائف تھیں۔
زوال ِ اسلام کے اس دور میں جب اقبال ملتِ اسلامیہ کے عروقِ مردہ میں عشق ِ مصطفےٰ ﷺکے پیغام کے ذریعے نئی روح پھونک کر اسے تباہی وہلاکت سے بچانے کی فکر میں تھے۔ اسلام دشمن استعماری طاقتیں منظم ہوکر مسلمانوں کے دلوں میں اسی عشقِ رسالت کی شمع بجھادینے کا سوچ رہی تھیں ۔ انھیں معلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل رسالت مآب ﷺ کے عشق و محبت سے خالی ہوگئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی نہ تو انھیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلاسکتی ہے اور نہ ہی اصلاح وتجدید کی ہزاروں تحریکیں انھیں اپنی منزل مراد تک پہنچاسکتی ہیں ۔ یہ محض ایک مفروضہ یاخیال خام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے ۔ مغربی استعمارکی اسی سازش کی طرف علامہ مرحوم نے اشارہ فر ماتے ہوئے کہا تھا
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں کبھی
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات!
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
چناچہ اس مقصد کے تحت اہلِ مغرب نے یہ فکری میدان اسلامی تحقیق کے نام پر بعض متعصب یہودی اور عیسائی مستشرقین کے سپرد کر دیا۔
جنہوں نے اسلام کی تعلیمات اور بانی اسلام کی شخصیت اور سیرت پر اس انداز سے تحقیق کر کے لاتعداد کُتب تصنیف کیں کہ اگر ایک خالی الذہن سادہ مسلمان نہایت نیک نیتی کے ساتھ بھی ان تصانیف کا مطالعہ کر تا ہے تو اس کا ذہن رسول اکرم کی ذات کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتا ہے اور ان کتابوں کے باقاعدہ مطالعہ سے جو ذہن تشکیل پاتا ہے اسے عشق رسالت کے تصور سے دور کا بھی واسطہ باقی نہیں رہتا ۔ ان مستشرقین نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ذہنوں کو مسموم کر نے کا محاذ سنبھال لیا جس سے وہ اپنے مطلوبہ نتائج کا فی حد تک حاصل کر رہے ہیں۔ مغربیت زدہ سیکولر ذہن جو فکری تشتت اور نظریاتی تشکیک میں متبلا ہوکر خود کو روشن خیال مسلمان تصوّر کر رہا تھا مستشرقین کے زہریلے پراپیگنڈے کے باعث عشقِ رسول کی دولت سے عاری ہوگیا اور مذہبی ذہن جو مستشرقین کے پراپیگنڈے کے اثر سے کسی نہ کسی طور بچ گیا تھا جدید لٹریچر کے نتیجے میں اسلام اور بانی اسلام سے وابستہ تو رہا لیکن عشق ِ رسول کے عقیدے کوغیر اہم تصور کر نے لگا۔ اس طرح دونوں طبقات اس دولت ِ لازوال سے تہی دامن ہوکر ایمانی حلاوت اور روحانی کیفیات سے محروم ہوگئے جدید تصورات کی گرفت اس قدر مضبوط اور کامل نہ تھی کہ مسلمانوں کی اسلامیّت ظاہر وباطن کے اعتبار سے محفوط رہتی ۔ یوں قومی و ملی زندگی تباہی وہلاکت کا شکار ہوگئی۔اس دور میں احیائے اسلام اور ملّت کی نشاة ثانیہ کی جس قدر علمی و فکری تحریکیں منصّہ شہود پر آئی ہیں ۔ ان سب کی تعلیمات سے جو تصور مسلمانوں کی نوجواں نسل کے ذہنوں میں پیدا ہورہا ہے ، یہی ہے کہ اسلام کو بحیثیت نظامِ حیات قبول کر لینا اور حضور کی سیرت و تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی کمال ِ ایمان ااور محبت ِ رسول ہے اس اتباع کے علاوہ جناب رسالت مآب ﷺ کی ذات ِ ستودہ صفات سے خاص قسم کی قلبی اور جذباتی لگاؤ جسے والہانہ عشقِ ومحبت سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کی علامت واحوال سے اہل ِ دل بخوبی واقف ہیں مقصودِ ایمان ہے تعلیم ِ اسلام بلکہ یہ جاہلانہ شخصیت پرستی کی ایک صورت ہے جو توحید خالص کے منافی ہے۔
اس نام نہاد روشن خیالی سے ہماری حیات ِ ملی پر جو مضراثرات مر تب ہوئے محتاج بیان نہیں ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عشقِ رسول کے اصل تصور کو قرآن وحدیث اور سنت صحابہ کے آئینے میں اس طرح اجاگر کیا جائے کہ آج کی نوجواں نسل جو تلاش حقیقت میں سرگرواں ہے اس آفاقی حقیقت سے باخبر ہو کر پھر سے اپنے آقا ومولیٰ کے ساتھ عشقِ ومحبت کا وہ تعلق استوار کر لے کہ اس کی نظروں کو دانش فرنگ کے جلوے کبھی خیرہ نہ کر سکیں ۔بقول اقبال
خیر ہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سر مہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ ونجف
اور انھیں دین حق کی اس کامل تعبیر کی صحیح معرفت نصیب ہوجسے اقبال نے اس شعری قالب میں ڈھال دیا ہے
بمصطفےٰ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست
اگربہ او نر سیدی تمام بولہبی ست