• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی جج، جرنیل یا سیاستداں، صادق امین نہیں، گاڈ فادر، مافیا کہہ کر آپ نے فیصلہ دیدیا، سماعت نیا بنچ کرے، جاوید ہاشمی

Todays Print

ملتان (نیوز ایجنسیاں) سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ کوئی جج، جرنیل یا سیاستداں صادق و امین نہیں، گاڈ فادر، مافیا کہہ کر آپ نے فیصلہ دیدیا، پانا ما لیکس کی تحقیقات کر نے وا لا سپریم کورٹ کا بینچ سماعت کا حق کھو چکا، کیس کی سماعت نئی بینچ کرے، شیخ رشید پہلے میرا پھر مشرف اور اب عمران کا درباری ہے، نوازشریف نے مجھے کبھی پسند نہیں کیا، شیخ رشید کو مجھ پر چیکر لگایا گیا، عمران نے کہا تصدق جیلانی کے بعد آنے والا چیف جسٹس پارلیمنٹ توڑ دے گا، میں نے کہا یہ مارشل لاء ہوگا، عمران نے کہا کہ جب جج پارلیمنٹ توڑے گا تو کون اسے مارشل لاء کہے گا، آئین کچلنے والوں سے کوئی پوچھنے والا ہے، یہ نہیں کہ جب چاہو بادشاہ کو پیادوں سے مروا دو، جس جج کا نام پاناما میں ہے کوئی اس کا نام لے سکتا ہے، جے آئی ٹی کیسے بنتی اور کام کرتی ہے جسٹس عظمت سعید کو پتا ہے، نوازشریف کی کوئی حیثیت نہیں، جرنیلوں کی انگلی کے اشارے سے تو ملک ہل جاتا ہے، قربانی ہمیشہ سیاستدانوں کو دینی پڑتی ہے، احتساب صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے، سازشیں عروج پر ہیں، نوازشریف مستعفی ہو کر احسن اقبال اور نثار میں سے کسی ایک کو وزیر اعظم بنا دیں۔  ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملتان میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

پریس کانفرنس کے آغاز ہی میں جاوید ہاشمی نے کہا کہ شاید یہ میری آخری سیاسی پریس کانفرنس ہو، میں اس ملک میں سیاست کے 50 سال گزار چکا ہوں اور تاریخ کے واقعات میرے سامنے ہیں، میری یادداشت ایک فلم کی طرح چلتی رہتی ہے۔میں یہ کہنا چاہتا کہ سیاست دانوں کو کھلی کتاب کی طرح ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقات ہمیشہ یک طرفہ ثابت ہوئیں دنیا میں کوئی بھی ایسی عدالت نہیں جس کے حکم پر جے آئی ٹی بنی ہو لیکن ہم نے بنا دی اور مزید تماشا دیکھئے کہ پاناماکیس کیلئے تشکیل کردہ بنچ نے حکمرانوں کو سیلین مافیا اور گاڈ فادر قرار دیا پھر بھی جے آئی ٹی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے حالانکہ اگر عدالت کے جج نے کہہ دیا کہ حکمران اور حکومت گاڈ فادر اور مافیا ہیں تو اس نے فیصلہ سنا دیا،مزید تحقیقات کی کیا ضرورت ہے حقیقت یہ ہے کہ عدالت نے انصاف ہی نہیں کیا۔ جاوید ہاشمی کے مطابق ʼچند ریاستی اداروں اور بیوروکریسی نے ماضی میں ملک کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے آمروں کو بھی تحفظ فراہم کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ʼجسٹس نعیم حسن شاہ نے کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو موت کی سزا سنانے کے لیے وہ دبا وکا شکار تھے ، اگر قوم کا عدالتوں پر اعتماد قائم نہیں رہتا تو وہ کس پر بھروسہ کریں گے؟سینئر رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ سیاست دانوں کو کھلی کتاب کی طرح ہونا چاہیے، عمران خان کے ساتھ اختلاف اصولوں کی بنیاد پر تھے۔

جاوید ہاشمی نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نواز شریف نے کھبی پسند نہیں کیا، آمریت کے دور میں پاکستان مسلم لیگ کو میں نے بچائے رکھا، اس کے باوجود نواز شریف نے میری راہ میں بڑی رکاوٹیں پیدا کیں ۔ میں نے نوازشریف کی درخوا ست پر شیخ رشید کیخلاف راولپنڈی میں الیکشن لڑا تو شیخ رشید کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ عمران خان سے تعلقات کے بارے میں جاوید ہاشمی نے بتایا کہ خان صاحب سے بہت اچھے تعلقات رہے مگر ان سے اختلاف اصولوں کی بنیاد پر رہا، جسکے باعث پی ٹی آئی کو خیر باد کہا۔شیخ رشید کے بارے میں جاوید ہاشمی نے بتایا کہ جب میں وزیر تھا تو شیخ رشید میرا درباری تھا، یہ نواز شریف کا بھی درباری رہا لیکن آج کل عمران خان کا بڑا درباری بناہوا ہے۔ وزارت سنبھالنے کے بعد نواز شریف نے اسے میری جاسوسی کے لئے لگادیا۔ ہاشمی نے کہا کہ عمران خان نے جتنی میری تعریفیں کی ہیں اگر انہیں اکٹھا کیا جائے تو 2والیم کی کتابیں بن جاتی ہیں عمران خان سے ایک سال بڑا ہوں اس عمر میں لوگ دلہنیں تلاش کرتے ہیں ہو سکتا ہے اگلے چھ ماہ میں عمران خان کو بُڈھا کھوسٹ کہہ کر کہا جائے اب تم سیاست کے قابل نہیں ریٹائرڈ ہو جائو کہاں سے آگئے ہو نواز شریف مجھ سے تین چار ماہ چھوٹا ہے اکثر سیاستدان میری عمر کے ہیں یا تھوڑا سا چھوٹے بڑے ہیں کئی تو  86-87سال کے ہیں وہ بھی تحریک انصاف کے ماتھے کا جھومر بن چکے ہیں۔

جاوید ہاشمی نے کہا کہ اسٹروکا ہونے سے مجھے دو فائدے ہوتے ہیں پہلا فائدہ یہ ہوا ہے کہ میرا گلہ ٹھیک ہو گیا ہے دوسرا یہ کہ میری یادداشت اچھی ہو گئی ہے میں نے اپنے علاج کے لیے بطور ایم این اے یا وزیر کبھی پیسہ نہیں لیا میں نے ہمیشہ کہا کہ یہ غریبوں کا پیسہ ہے میں اس پیسے سے اپنے گلے کا علاج نہیں کرائوں گا سیاستدان کو ہمیشہ اپنا پلو سنبھال کر چلنا چاہیے تا کہ اس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے میں 20سالہ سیاست اپنی زمین بیچ کر کی ہے یا میرے دوست احباب میرے معاملات سنبھالتے ہیں اب اپنا گھر بھی تقریباً بیچ دیا ہے میرے لیے یہ کوئی فکر کی بات نہیں بلکہ فخر کی بات ہے کہ کوئی آدمی میرا ذرا سا بھی پیسے کا اسکینڈل لیکر میرے پاس نہیں آسکتا عمران خان سے اختلاف رائے تھا ان کی بہت سی باتیں ایسی ہیں اگر انہیں میں یہاں کروں تو میں خود گندا ہوں گا جہاں تک نواز شریف کی بات ہے تو انہوں نے نہ مجھے کبھی پسند کیا ہے اور نہ ہی خوشی سے ٹکٹ دیا میرے راستے رکتے رہے مگر میں نے کبھی اسکی پرواہ نہیں کی میں کبھی بھی ان کی کچن کیبنٹ کے قریب سے بھی نہیں گزرا اب نوازشریف بیٹھ کر روئے ایک دفعہ مجھے ضیاء الحق نے کہا کہ الیکشن کرانے ہیں آپ وزیر بن جائیں اس سے پہلے مشورہ کر لیں اور پھر مجھے بتائیں میں رات تین بجے تک جا کر آپ کے جواب کا انتظار کروں گایہ بات انہوں نے جنرل کے ایم عارف کی موجودگی میں کہی تھی جو آج کل پریس کانفرنسیں کر رہا ہے ضیاء الحق نے کہا کہ میں نے الیکشن کرانے ہیں ورنہ آپ کہیں گے کہ جرنیل آکر عہدوں سے چپک جاتے ہیں ضیاء الحق کی اس بات پر میں نے کہاکہ میں مشورہ کروں گا جب میں نے مشورے کے لیے کچھ لوگوں کو پی سی راولپنڈی میں بلایا ان میں سعود ساحر ، صدیق الفاروق تھے مختار حسن تھے وہ ابھی زندہ ہیں اس میں میرا ایک درباری شیخ رشید احمد بھی تھا وہ میری ٹانگوں میں پڑ گئے اور کہا مرشد خدا کے لیے وزارت نہ چھوڑیں ایسے لوگ ہر ایک کے دربار میں ہوتے ہیں یہ نواز شریف پرویز مشرف اور اب عمران خان کا درباری ہے جب یہ سمجھتا ہے کہ یہ آدمی مجھے سیٹ جتوانے میں مدد دے گا اس کو جاکر چمٹ جاتا ہے۔

جاوید ہاشمی نے کہا کہ پہلے بھی اس ملک کے ساتھ بہت ظلم ہوئے اب پھر سازشیں عروج پر ہیں لوگوں کو انصاف چاہیے ان کو ان کی معاشی حالت میں بہتری چاہیے پاکستان میں سیاسی اتھل پھتل افورڈ بھی نہیں کر سکتے کہ آپ چیزوں کو خراب کریں اور توقع کریں کہ ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے عوام کے خادم کے طور پر میرا ضمیر مجھے کہتا ہے کہ آپ سب باتیں کہہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ایک پارٹی میٹنگ میں کہا تھا کہ وہ کہتے ہیں۔ اس موقع پر جاوید ہاشمی نے کندھے پر انگلی کے ساتھ ستارے کا نشان بنایااگر عمران خان سچا آدمی ہے تو کہتا میں نے ایسا نہیں کہا تھا تو میں جا کر معافی مانگ لوں گا اگر میں اس وقت یہ باتیں قوم کو بتاتا تو ضروری تھا عمران خان نے کہا تھا کہ یہ چیف جسٹس تصدق جیلانی چلا جائے گا اور بعد میں جو جج آئیں گے وہ پارلیمینٹ کو توڑ دیں گے جس پر میں نے عمران خان سے کہا کہ یہ بھی تو مارشل لاء ہو گا جبکہ عمران خان نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے جج ہی توڑ رہیں ہوں گے تو کون کہے گا مارشل لاء ہے وہ جج ہی فیصلہ دے دیں گے کہ کوئی مارشل لاء نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے نوازشریف پر کوئی گلہ نہیں ہے کم از کم وہ آکر میرا شکریہ ہی ادا کر دیتے ہیں کہ میں نے اپنے گھر کو آگ لگا کر ان کی پارٹی کو بچائے رکھا اگر نواز شریف نے سات سال میں مجھ پر ایک روپیہ بھی خرچ کیا ہوا تو میں ذمہ دار ہوں میں ان پاکستانی دوستوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے جاپان اور امریکا سے پارٹی کو پیسے دیے جس سے ہم پارٹی کو چلانے کے قابل ہو سکے جب پارٹی ایک بہادر آدمی کا نعرہ لگاتی تھی تو نواز شریف کو یہ بات پسند نہ تھی اور کہتے تھے صرف ایک ہی بہادر آدمی رہ گیا ہے۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں کبھی بھی عہدے کا خواستگار نہیں رہا شہباز شریف، چوہدری نثار زندہ ہیں وہ میری بات کی تردید کر نہیں سکتے دونوں میرے گھر آگئے نواز شریف نے مجھے ایئر پورٹ پر کہا آپ وزیر بن جائیں مگر میں نے انکار کر دیا دونوں دفعہ مجھے کہا گیا کہ 1990میں بھی اور 1997میں بھی کہا گیا مگر میں نے کہا کہ میں ہرگز نہیں بنوں گا میری اتنی منتیں کرتے تھے کہ مجھے شرم آتی تھی کہ اب کیا کروں ان سب باتوں کے باوجود کوئی نہیں جانتا نواز شریف نے میرے لیے کتنی رکاوٹیں کھڑی کیں مجھے نواز شریف اور عمران خان سے کیا لینا دینا ہے مجھے تو اپنے ملک کے غریبوں کا احساس ہے ان سے میں نے لینا دینا ہے جب ان سے تمام چیزیں چھینی جا رہی ہوں تو میں بولے بغیر رہ نہیں سکتا۔

جاوید ہاشمی نے کہا کہ مجھ پر جے آئی ٹی بنی تھی مجھ پر بھی مقدمہ چلایا گیا تھا مگر جے آئی ٹی نے مجھے کلیئر کر دیا کہ اگر تین کروڑ سے زیادہ کی جائیداد ہو تو پھر نیب میں کیس جاتا ہے چونکہ آپ کی جائیداد اس سے کم ہے لہٰذا یہ کیس نیب والا نہیں ہے جے آئی ٹی نے مجھے کلیئر کر دیا اس کے باوجود مقدمہ چلا جنہوں نے مقدمہ چلایا وہ جرنیل روزانہ ٹی وی پر آکر اکٹھے بیٹھتے ہیں، ایک بار جب میں نے جنرل امجد شعیب سے پوچھا کہ آپ 1977میں کیا تھے تو کہنے لگے میں ملتان میں میجر تھا اس پر میں نے کہا کہ آپ میجر تھے تو میں 7کور کمانڈرز کا کولیگ تھا میں ایئر مارشل انعام الحق جنرل چشتی کمال سید میاں جنرل عاصم کا کولیگ تھا۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ جرنیلوں کی ایک انگلی سے پورا ملک ہل جاتا ہے نواز شریف کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، جرنیل جوں ہی ریٹائرڈ ہو تے ہیں امریکا چلے جاتے ہیں، آئی ایس آئی کے جتنے بھی سربراہان ہیں وہیں بیٹھے ہوتے ہیں انکی جائیدادیں بے شمار ہیں کوئی نیوزی لینڈ میں ہے تو کوئی آسٹریلیا اور دبئی میں ہے مجھے بتایا جائے ان سے کوئی پوچھ سکتا ہے، جب بھی ملک کے لیے قربانی دینی پڑی ہے تو سیاستدانوں کو ہی دینی پڑی ہے ایک اینکر کو تو یہ نہیں پتہ کہ حسین شہید سہروردی کی بیروت میں موت ہوئی اور شک یہی تھا کہ ان کو بھی ایوب خان نے سازش کر کے مروا دیا اور اس شخص کی میت کو مشرقی پاکستان لے جانے کیلئے کرائے کے پیسے نہیں تھے اس کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا سیاستدانوں نے قربانیاں دی ہیں۔

جاوید ہاشمی نے کہا کہ جس وقت جے آئی ٹی نے میرے خلاف پروپیگنڈا چھاپا تو ایسالگ رہا تھا کہ میں پورا پاکستان لوٹ کر کھا گیا ہوں اس نے بینکوں کی رسیدوں کے ڈھیر لگا دیے میرے گھر کو تاج محل سے بڑا محل بنا کر دکھا دیا جے آئی ٹی تھی میں کیا کر سکتا تھا جو پہلے کہہ چکی تھی کہ آپ کے خلاف کچھ نہیں ہے میں نہیں کہتا کہ نواز شریف کا احتساب نہیں ہونا چاہیے میں پہلا آدمی ہوں جو کہتا ہوں کہ سب کے احتساب ہونا چاہیں میں پوچھتا ہوں کہ آج تک سیپریٹل جوڈیشل کونسل سے کسی جج کو سزا ہوئی ہے اس کونسل کی حیثیت سے کیا ہے وہ ججوں کو کیوں نہیں پکڑتی ان سے یہ بات کوئی کیوں نہیں پوچھتا کیا یہ ملک کے ساتھ انصاف ہے حتٰی کہ کسی سول جج کو بھی کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا،آئین کچلنے والوں سے کسی نے پوچھا؟ کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے موجودہ ججوں نے میرے ہاتھوں کو چوم کر آنکھوں پر لگایا ہے یہ انکی مہربانی ہے چیف آف اسٹاف جنرل وائن، جنرل کیانی، ایئر چیف، ایڈمرل سب نے کھڑے ہو کر مجھے سیلوٹ کیا ایسا کیوں کیا؟ میں تو ایک ایسا آدمی ہوں جو وزیر بھی نہیں بننا چاہتا انہوں نے کیوں مجھے سیلوٹ کیا ؟میں انکے بارے میں بات کر سکتا ہوں میں جانتا ہوں کہ ان کی ورتھ کیا ہے میں سب کی ورتھ جانتا ہوں، نواز شریف نے مجھے قائمقام صدر بنایا پھر مجھ سے بہت تنگ ہو گیا اس کے کابینہ میں بیٹھے تین وزیروں نے مجھے پر فزیکلی تشدد کیا میاں نواز شریف آتے ہی ان تینوں کو وزیر بنایا عمران خان کبھی نہیں کہہ سکتا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اس نے کوئی نہ کوئی ایشو اٹھانا ہوتا ہے اب پاناما کا ایشو آگیا ہے پہلے دھاندلی کا ایشو تھا جو کچھ میں کہتا تھا آج وہی کچھ پریس لکھ رہا ہے کہ راحیل شریف کی بات عمران خان کو مان لینی چاہیے تھی میرے اوپر بھی کوئی تو الزام لگائو مجھے عدالت کیوں نہیں بلاتی میں تو وہاں جا کر سچی باتیں کروں گا اس کے بعد سزا دے کر جیل میں ڈال دو ساری زندگی پڑا رہوں گا لیکن میں سچ تو ضرور کہوں گا نواز شریف آصف زرداری بے نظیر دس سال جرنیلوں کی خوشاآمدیں کرتے رہے ہیں اسلم بیگ کو تغمہ جمہوریت دیا گیا بے نظیر نے جرنیلوں کے کچن میں جاکر برتن دھوئے ان کیلئے چائے اورکافی بنائی یہ ہے ہمارے ملک کا حال، جرنیل دس سال پلاٹ اور مربعے لیتے رہتے ہیں دس سال کے بعد کہتے ہیں اب ہم خود آگئے ہیں کہتے ہیں سیاستدا نوں نے ملک کو لوٹ لیا ہے، یہ کرپٹ ہیں اب ہم ملک کو خود چلائیں گے یہ اس ملک کا مقدر ہے، اگر میں کہتا ہوں کہ نواز شریف نے پیسہ نہیں لوٹا ہو گا تو میں جھوٹ بول رہا ہوں گا، نواز شریف نے ثابت کرنا ہے کہ ایسا نہیں ہوا دنیا میں کوئی ایک بھی عدالت بتا دو جس نے جے آئی ٹی بنائی ہو یہ ایک نیا تماشا ہے جب وہ بن گئی ہے تو اس کو آپ نئے نئے اشارے اور لائن دے رہے ہیں انہیں گاڈفادر کہہ دیا گیا ہے شاید وہ ہوں لیکن آپ جج ہیں جج احتیاط کرتے ہیں اس ملک میں سپریم کورٹ نے بے شمار غلطیاں کی ہیں آئین توڑا گیا اسے کچھ نہ کہا گیا آئین توڑ کر اس میں مرضی کی چیزیں ڈال دی گئیں صادق اور امین کو ضیاء الحق نے اپنے مخالفین کو نکالنے کے لیے آئین کا حصہ بنا دیا صادق اور امین صرف نبی ۖہی ہیں یہاں 65اور 77 کے الیکشن میں جسکی داڑھی چھٹی ہوئی تھی اسے کہتے تھے جائو تم صادق اور امین ہو جو مرضی کا ہوتا تھا وہ بے شک کلین شیو ہی کیوں نہ ہو اسے کہتے تھے یہ صادق اور امین ہے تم آجائو، صادق امین صرف حضرت محمدﷺ ۖ ہی ہیں، صادق امین سپریم کورٹ کا کوئی جج اور کوئی جرنیل اور کوئی سیاستدان نہیں ہے میں بھی گنہگار ہوں یہ اس قسم کا آئین بناتے ہیں ووٹ چلتا رہتا ہے پھر اسے نکالے کون جو 58-2bنکالے اس کو حکومت گئی جو چیزیں انہوں نے ڈال دی ہیں اسے کوئی نہیں نکال سکتا اور کہتے ہیں 73کا آئین ہے میں چاہتا ہوں کہ جمہوریت کو چلنے دیا جائے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اسکی صرف لپیٹ دی جائے پھر نئے سرے سے شطرنج کی گوٹیاں رکھی جائیں اس طریقے سے کوئی آئین و جمہوریت نہیں چلے گی، سپریم کورٹ کا وقار ججز نے ہی بنانا ہے میں جے آئی ٹی سے گزرا ہوں۔

خیال رہے کہ رواں سال جون کو ایک پریس کانفرنس کے دوران سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے کہا تھا کہ ʼحالیہ دنوں میں کئی مسائل سامنے آئے ہیں اور پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی)کی ساکھ کے حوالے سے بھی مختلف شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے، اگر جے آئی ٹی متنازع ہوجاتی ہے تو لوگ اس کی انکوائری کو تسلیم نہیں کریں اور نواز شریف مظلوم بن کر سامنے آئیں گے۔

تازہ ترین