• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلگت بلتستان آئینی پیکج۔ خدشات و تحفظات,,,,صباحت صدیقی

گلگت بلتستان تاریخی اعتبار سے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے اسے سیاسی لحاظ سے تین صوبوں یعنی جموں، کشمیر اور لداخ و گلگت میں تقسیم کیا گیا تھا۔ 1947ء میں شروع ہونے والی تحریک جہاد کے نتیجے میں ریاست کا ایک حصہ آزاد ہوکر آزاد جموں و کشمیر کہلایا جبکہ لداخ اور گلگت کو مجاہدی نے اپنی جدوجہد سے آزاد کروا کر یکم نومبر 1947ء کو آزادی کا اعلان کیا اور حکومت پاکستان کو خطے کے انتظام و انصرام کی دعوت دی۔ 13اگست 1948ء اور 5جنوری 1949ء کو جو قراردادیں منظور ہوئیں۔ ان کی رو سے بھی پاکستان اور بھارت دونوں نے ان اضلاع کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تسلیم کیا جس کا اعتراف دونوں کے ریاستی آئین میں بھی موجود ہے۔ 28اپریل 1949ء کو حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان ایک معاہدے کے تحت گلگت و بلتستان کا انتظام و انصرام عارضی طور پر حکومت پاکستان کے حوالے کردیا گیا۔گذشتہ باسٹھ سالوں میں سیاسی عمل نہ ہونے کے باعث یہاں یکجہتی کی فضا متاثر ہوتی رہی۔ ایک خاص کمیونٹی آغا خان اور مکتبہ فکر (اہل تشیع) کے حاملین کو یہ فکر لاحق کہ آزاد جموں و کشمیر میں شمولیت سے وہ ایک کمزور سی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ رائے عامہ تقسیم ہوئی اور تین نقطہ نظر سامنے آئے۔1۔ علاقے کو تاریخی پس منظر کے اعتبار سے آزاد ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ شامل کیا جائے۔2۔ ان علاقوں کو صوبائی درجہ دیا جائے۔3۔ ان علاقوں کو بالکل خودمختار ریاست بنایا جائے۔2000ء میں تمام جماعتوں پر مشتمل گلگت بلتستان نیشنل الائنس معرض وجود میں آیا۔ جس میں تینوں نقطہ ہائے نظر کے حامیوں نے ایک متفقہ موقف پر اتفاق کرلیا جس کے مطابق اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے چونکہ یہ علاقے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں اس لئے مسئلہ کشمیر کے حل تک ان علاقوں کو…1۔ آزاد جموں و کشمیر طرز کا بااختیار نظام حکومت دیا جائے، جس میں انتظامی و عدالتی تمام ادارے داخلی لحاظ سے خود مختار و بااختیار ہوں۔2۔ دونوں اکائیوں، یعنی آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو تحریک آزادی کشمیر کی تقویت اور ریاست کی علامتی وحدت کیلئے کشمیر کونسل میں مساوی نمائندگی دی جائے اور کونسل کو دو اکائیوں کا ایوان بالا قرار دیا جائے جس کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان ہوں۔3۔ مسئلہ کشمیر پر ہونے والی بات چیت کے تمام مراحل میں گلگت بلتستان کے نمائندگان کو بھی حق نمائندگی دیا جائے۔لیکن آئینی پیکج میں اس متفقہ موقف کو نظر انداز بھی کیا اور مقامی قائدین و آزاد جموں و کشمیر کی قیادت سے مشاورت کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا جس سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوا۔شکوک و شبہات میں مزید اضافہ یوں بھی ہوا کہ وزارت خارجہ کے اجلاس میں جہاں آزاد جموں و کشمیر کی قیادت نے دو ٹوک انداز میں اس پیکج کو مسترد کرتے ہوئے اسے تحریک آزادی کشمیر کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وعدہ کیا کہ اعلامئے کے حتمی اجراء پر ان تحفظات کی روشنی میں اصلاح کی جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا اور چند دن بعد جو اعلامیہ جاری ہوا وہ وہی تھا جس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ رفتہ رفتہ گلگت بلتستان کا مستقبل ریاست جموں و کشمیر سے دور ہوتا چلا جائیگا۔ o اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارت بھی اپنے زیر قبضہ کشمیر کے کچھ حصوں کو اپنے ڈھانچے میں ضم کرنے کی کوشش کرے۔ o حکومت پاکستان کا اس انداز سے اسٹیٹس کو تبدیل کرنا ایک لحاظ سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ایسے موقع پر جبکہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی گونج بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر سنائی دینے لگی ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے روایتی، دیرینہ اور اصولی موقف کو سخت نقصان پہنچا سکتا ہے۔o اگر گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر سے الگ کیا جاتا ہے تو یہ فیصلہ مسئلہ کشمیر کی مسلمہ حیثیت کیلئے یوں بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ریاست جموں و کشمیر بشمول گلگت بلتستان کے عوام نے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے مقدر کو پاکستان یا بھارت کے ساتھ وابستہ کرنا ہے۔ بھارت تو ایک طویل عرصے سے وادی میں مسلم آبادی کا تناسب کم کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے ایسے میں پاکستان کی جانب سے کم و بیش پندرہ، سولہ لاکھ کی مسلم آبادی جس کا ووٹ رائے شماری کی صورت میں پاکستان کو ہی ملنا ہے، اس منظرنامے سے خارج کرنا تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ان تحفظات و مضمرات اور تحریک آزادی کشمیر و مسئلہ کشمیر کی مسلمہ حیثیت کو براہ راست متاثر کرنے والے خدشات کے مقابلے میں حکومت کا موقف مضبوط نظر نہیں آتا۔ یہ صورت حال اضطراب و بے چینی کا سبب بن رہی ہے حالانکہ اس خطے کی اسٹرٹیجک اہمیت متقاضی تھی کہ علاقے میں بے چینی چیسی صورتحال سے ہر ممکن گریز کیا جاتا۔ یہ علاقہ چین و پاکستان کے درمیان تعلقات کی اہم کلید ہے۔ شاہراہ ریشم نے ان تعلقات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین و پاکستان کے قریبی تعلقات میں دراڑ ڈالنے کیلئے بااثر عالمی لابی کی نظریں اس علاقے پر ہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات مکمل ہوگئے ہیں، اگست کے مہینے میں گلگت بلتستان کی داخلی خودمختاری کے صدارتی آرڈنینس کے نفاذ کے بعد پہلے انتخابات میں 24رکنی قانون ساز کونسل میں سے 23ارکان اسمبلی کا انتخاب ہوا ہے۔ حالانکہ اندازہ یہ لگایا جارہا تھا کہ کوئی جماعت بھی واضح اکثریت حاصل نہ کر پائی گئی اور مخلوط حکومت بنے گی لیکن اب پی پی آسانی سے حکومت بنا لے گی۔
تازہ ترین