انتہا پسند گروہ اہم خیال کیے جانے والے افراد کو اغوا کرنے کے بعد اُن کی ویڈیوز ریلیز کرکے اُن کے اہل ِخانہ اور حکومتوں کو پیغام دیتے ہیں کہ اُن کی رہائی کے عوض اُن کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ اغوا کیے جانے والے افراد کی حالت افسوس ناک دکھائی دیتی ہے لیکن وہ اپنے حالات کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ بعض اوقات نقاب پوش انتہا پسندبندوقیں تانے ہوتے ہیں جب کہ مغوی بیان ریکارڈ کرارہا ہوتاہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسی ویڈیوز کا مقصد مغوی کے اہل ِ خانہ اور حکومتوں پر مطالبات منظور کرنے کے لئے دبائو ڈالنا ہوتا ہے۔
انتہا پسندی میں اضافے کے ساتھ افغانستان اور پاکستان میں اغوا برائے تاوان کا ’’بزنس‘‘ فروغ پذیر ہوا۔ قانون کی عملداری سے دور ، جرائم پیشہ گینگز کے لئے یہ ایک پرکشش اور من پسند سرگرمی ہے ۔ اکثر اوقات ہائی پروفائل افراد کواغوا کرنے کے لئے پیشہ ور اغواکار بھاری فیس کے عوض انتہا پسندوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔اہم مغویوں کی رہائی کے لئے بھاری رقوم سے لے کر گرفتار شدہ انتہا پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ اکثر کیسز میں رہائی کے لئے تاوان ادا کردیا جاتا ہے ۔
کئی برسوںسے یہ بھی ہورہا ہے کہ اغوا ہونے والے افراد کے اہل ِ خانہ بھی اغواکاروں کے نام پیغام ریکارڈ کراکے اُن سے رحم کی اپیل کرتے ہیں ۔ اُنہیں امید ہوتی ہے کہ شاید مغویوںکے والدین، بچوں ، بیویوں یا بھائی بہنوں کی فریاد سن کر انتہا پسندوں کا دل پسیج جائے اور وہ اُن کے پیاروں کو رہا کردیں۔ لیکن ایسی کوئی مثال نہیں کہ ایسی فریاد سے کسی اغواکار کادل نرم ہوا ہواور اُس نے مطالبہ پورا ہوئے بغیر، محض ترس کھاتے ہوئے کسی مغوی کو رہاکردیا ہو۔ ایسی ہی ایک تازہ ترین ویڈیو کینیڈ ا کے ایک جوڑے ، پیٹرک بوئل اور لنڈا بوئل نے ریلیز کی ۔ ریکارڈ کردہ ویڈیو انگلش زبان میں ہے جس کے ساتھ اردوا ور پشتو ترجمہ بھی موجود ہے ۔ اس ویڈیو میں اپیل کرتے ہوئے امید ظاہر کی گئی ہے کہ اُن کے بڑے بیٹے جوشا بوئل ، اُس کی بیوی کیٹلان کولمین اور دوبچوں، جو دوران ِ قید ہی پیدا ہوئے ، کو آخر کارانسانی ہمدردی کی بنیا د پر رہا کردیا جائے گا۔ اُنھوں نے اپیل پر مبنی ویڈیو جاری کرنے کے لئے رمضان کے آخری ایام، جبکہ عیدالفطرقریب تھی ، کا انتخاب کیا۔ اُنہیں یقین تھا کہ روزہ دار مسلمانوں سے رحم کی اپیل کرنے کا یہ بہترین وقت ہے ۔ تینتیس سالہ کینیڈین شہری ، جوشا بوئل اور اُس کی اکتیس سالہ امریکی بیوی کیٹلان کولمین کو اکتوبر 2012 ء میں واردک کابل سڑک سے اغوا کیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اس سڑک پر پیدل سیاحت کررہے تھے ۔شورش زدہ افغانستان میں ایک مغربی جوڑے کا یوں بے فکری سے سیاحت کرنا تعجب خیز ہے ، یہاں اُن کے لئے ہزاروں خطرے لاحق ہوسکتے تھے ۔ بعد میں اطلاعات آئیں کہ وہ جوڑا حقانی نیٹ ورک کی قید میں ہے ۔ سراج الدین حقانی کی قیادت میں فعال یہ گروہ افغان طالبان کا حصہ ہے ۔ حالیہ برسوں میں سراج حقانی طالبان کا ڈپٹی لیڈر رہا ہے۔ اس مغوی جوڑے اور ان کے بچوں کی جاری کی گئی ویڈیوز کامقصد اُن کے اہل ِخانہ اور امریکی اور کینیڈین حکومتوں پر دبائو ڈالنا تھا کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے مطالبات قبول کرلے ۔ اگرچہ مطالبات منظرعام پر نہ آئے لیکن درمیانی رابطہ کاروںنے اُن کے اہل ِخانہ، امریکی اور کینیڈین حکومت تک پیغام پہنچا دیا ۔ اس سے پہلے حقانی نیٹ ورک نے افغانستان میں گرفتار اپنے دس قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا ،لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ فہرست آٹھ قیدیوں تک محدودہے ۔ ان میں سے تین قیدی حقانی نیٹ ورک کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اُن کی رہائی تک ان مغویوں کو واپس نہیں کیا جائے گا۔ ان میں سے ایک انس حقانی ہے جو کہ سراج الدین حقانی کا بھائی اور مشہور افغان مجاہدین کمانڈر، مولوی جلال الدین حقانی کا بیٹا ہے ۔ اُسے امریکی حکام نے بحرین سے گرفتار کیا جب وہ قطر کے دورے سے واپس آرہا تھا ۔ بعد میں اُسے افغان حکومت کے حوالے کردیاگیا۔ ایک افغان عدالت نے اُسے سزائے موت سنادی ۔ تاہم مخصوص سیاسی گروہوں کے مطالبے کے باوجود اشرف غنی حکومت نے سزا پر عمل درآمد نہیں کیاہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حقانی نیٹ ور ک کا شدید ردعمل متوقع ہے ۔ اس صورت میں جوشا بوئل اور کیٹلان کولمین سمیت کئی ایک مغویوں کی سلامتی غیر یقینی ہوجائے گی ۔ حقانی نیٹ ورک کے نزدیک ایک اور اہم قیدی، قاری رشید ہے جو انس حقانی کے ہمراہ قطر گیا اور بحرین میں امریکی حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا تھا۔ تیسرا قیدی حاجی مالی خان ہے جو سراج الدین حقانی کا ماموں ہے جسے کئی برسوں سے افٖغان حکومت نے قید کررکھا ہے ۔ پیٹرک بوئل اور لنڈ ا نے اپنی اپیل میں سراج الدین حقانی کے بھائی ، انس حقانی کیس کا نام لئے بغیر ذکر کیا ہے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن سے افغان حکومت پر اثر انداز ہونے کا کہا جارہا ہے کہ وہ حقانی کے بھائی کی سزا پر عمل درآمد روک دے ۔ اُنھوںنے دعویٰ کیا کہ اُنھوںنے افغان حکومت کے کئی ایک سینئر افسران کو خط لکھا ہے ، نیز امریکی اور کینیڈین حکومتوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ افغان حکومت کو سزائے موت دینے سے باز رکھیں۔
ویڈیو اپیل میں پیٹرک بوئل حقانی نیٹ ور ک سے مخاطب ہے کہ اگر چہ وہ عام شہری ہیںلیکن اُن کی کوششیں ضرور رنگ لائی ہیں کیونکہ افغان حکومت نے سزا پر عمل درآمد نہیں کیا ہے ۔ اس کے بعد اُنھوںنے حقانی نیٹ ورک سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بھی ترس کھاتے ہوئے اُن کے پیاروں کو رہا کردیںکیونکہ وہ عام شہری ہیں اور ان کے کسی حکومت یا فوج سے روابط نہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان میں طالبان کی اسلامی امارت دیگر مسلمان حکومتوںکی روایت کی پیروی کرتے ہوئے رمضان کے احترام اور عید کی خوشی کے موقع پر قیدیوں کو رہا کردے ۔ یہ اپیل اور رمضا ن اور عیدکی مبارک باد کے پیغامات طالبان کے سپریم کمانڈر، ملا ہیبت اﷲ اخوندزادہ اور سراج الدین حقانی کے نام تھے ۔ اس اپیل میں بوئل فیملی نے تسلیم کیا ہے کہ افغان عوام کو بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑا لیکن عام شہریوں کو اغوا بنا کر رکھنے سے ان نقصانات کی تلافی نہیں ہوگی ۔ پیٹرک بوئل اور لنڈا بوئل نے ویڈیومیں اپنے بیٹے اور بہو سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حوصلہ رکھیں اور مایوس نہ ہوں۔
افغان طالبان یاحقانی نیٹ ورک کی طرف سے اس ویڈیو پر کوئی رد ِعمل سامنے نہیں آیا لیکن حقانیوں کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس جوڑے اور اُن کے بچوں کو اس وقت تک رہانہیں کیا جائے گاجب تک انس حقانی، حاجی مالی خان اور قاری رشید کو رہائی نہیں مل جاتی ۔ یہ چاروں مغوی گزشتہ پانچ برس سے حقانیوں کی قید میں ہیں جو اس امید پراُن کی ہر ضرورت پوری کررہے ہیں کہ شاید وہ ان کے بدلے اپنے آدمیوں کو افغان حکومت اور امریکی فورسز کی قید سے چھڑا سکیں۔ تاہم حقانی نیٹ ورک کی تحویل میں صرف یہی چار مغربی شہری نہیں ہیں۔ اس نے گزشتہ گیارہ ماہ سے امریکن یونیورسٹی ، افغانستان کے دو اساتذہ( ایک امریکی اور دوسرے ا سٹریلین) کو اپنے پاس رکھا ہوا ہے ۔ اُنھوں نے ویڈیو پیغامات کے ذریعے اپنی اپنی حکومتوں سے اپنی رہائی کی اپیل کی ہے ۔ سولہ جون کو ریلیز کردہ تازہ ترین ویڈیو میں اُنھوںنے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ اور آسٹریلین وزیر ِاعظم سے کہا ہے وہ ان کی رہائی کے لئے افغان طالبان سے بات کریں۔ طالبان ان کے بدلے بگرام اور پلی چرخی جیلوں سے اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ جس دوران طرفین نے اس معاملے پر سخت اور بے لچک موقف اختیار کررکھا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں ایسی بہت سے ویڈیوز سامنے آئیں گی ۔ ان کے ذریعے پیغامات کی ترسیل کی جائے گی جبکہ کسی ممکنہ خفیہ ڈیل کے لئے مذاکرات پردے کے پیچھے ہوسکتے ہیں۔