سفارتی حلقوں میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ دورےکو اسرائیل تک محدود رکھنے کی حکمت عملی کو ایک غیرتحریری ’’سفارتی رواج‘‘ سے انحراف قرار دیا جارہا ہے۔ کیونکہ عالمی رہنمائوں کا بالعموم شیوہ رہا ہے کہ اسرائیل کے دورےپر جائیں تو فلسطینی علاقےکا وزٹ بھی کرتے ہیں۔ حالیہ مثال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہے کہ اسرائیل کے دورہ پر گئے تو فلسطینی قیادت سے بھی ملاقات کی تھی۔ بھارت کےہاتھوں یوں اگنور ہونے پر فلسطینی قیادت کی جانب سے تاسف اور مایوسی کا اظہار عین فطری ہے۔ صدر محمود عباس کے ڈپلومیٹک ایڈوائزر نے کہا کہ بھارت کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کا پورا حق ہے مگر یہ کتربیونت فلسطین کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔ مزید فرمایا کہ وزیراعظم مودی کا فلسطین نہ آنا محل نظر ہے جبکہ ہمارے صدر نے اسی مئی میں بھارت کا دورہ کیا تھا جس کے دوران متعدد دوطرفہ معاہدات طے پانے کے علاوہ مسئلہ فلسطین کے ’’دو ریاستی حل‘‘کے حوالے سے ہمارے موقف کی حمایت بھی کی گئی تھی کہ 1967 کی سرحدیں بحال ہوں اور مشرقی یروشلم کو فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ موصوف نے ایک اور مزے کی بات بھی کی کہ چلو اچھا ہوا، مودی صاحب نہیں آئے، آتے بھی تو ہمارے صدر سے ملاقات نہ ہوپاتی۔ کیونکہ وہ ہفتہ بھر کے دورہ پر ملک سے باہر ہیں فلسطینی مشیر کی اس منطق کو سفارتی حلقوں میں فیس سیونگ کے طور پر لیا جارہا ہے۔
مڈل ایسٹ کے ذرائع ابلاغ نے بھی اس ڈویلپمنٹ کا نوٹس لیا اور بھارت کو یاد دلایا کہ ماضی میں دونوں ملکوں کی لیڈرشپ کے درمیان کس قدر گاڑھی چھنتی رہی ہے اور پنڈت نہرو کس طرح سے فلسطینی کاز کی حمایت آزادی سے پہلے بھی کیا کرتے تھے۔ پھر ان کی صاحبزادی اندرا گاندھی کو تو یاسر عرفات سسٹر کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کے سیاسی اور عسکری حلقے اس زمانے میں بھی اندرا۔عرفات ریلیشن شپ پر تحفظات کا اظہار کیا کرتے تھے۔ عسکری لیڈرشپ بالخصوص پریشان تھی کہ وزیراعظم اندرا اس غیرفطری اتحاد میں اس قدرد لچسپی کیوں لیتی ہیں۔فوجی کمانڈوز کی ایک میٹنگ میں اس موضوع پر کھل کر بات ہوئی اور فلسطین کے مقابلے میں اسرائیل کے ساتھ روابط بڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ مستقبل اسرائیل کا ہے جبکہ فلسطین ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوتی ہوئی ریاست ہے۔ عسکری قیادت نے اسرائیل میں بننے والے جنگی ساز و سامان میں دلچسپی کا اظہار بھی کیا کہ دفاعی درآمدات میں روس اور امریکہ کے بعد اسرائیل کی جانب دیکھنے میںبھی کوئی مضائقہ نہیں۔ بھارت کے سفارتی حلقوں کی جانب سے استدلال سامنے آیا کہ فلسطین کے ساتھ غیرضروری اظہار محبت کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے موقف کی کمزوری کا سبب بنے گا۔ مقبوضہ علاقوں کے حوالے سے فلسطینی موقف کی حمایت کرکے بھارت کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار نہیں دے سکے گا اور متضاد حکمت عملی سے خواہ مخواہ کی جگ ہنسائی ہوگی۔
فلسطین بتدریج پس منظر میں چلا گیا اور اسرائیل کی اہمیت تیزی سے بڑھی۔ اب عالم یہ ہے کہ بھارت۔اسرائیل تعاون زراعت اور واٹر کنزرویشن اورسرفیس ٹو ایئر میزائل سسٹم کی فراہمی کا معاہدہ ہوا جس کی مالیت دو بلین ڈالر ہے اور اس نوعیت کے مزید متعدد معاملات پائپ لائن میں ہیں۔ یاد رہے کہ مودی صاحب کے دورہ کے دوران مختلف شعبوں میں مفاہمت کی سات عدد یادداشتوں پر دستخط ہوئے تھے جن سے ’’دوطرفہ تعاون کے نئے افق‘‘ کھلنے کی توقع کی جارہی ہے۔ نئی دہلی میں فلسطینی سفارت خانہ اس صورتحال پر پریشان ہے۔ مگر مداوے کی کوئی صورت سجھائی نہیں دیتی معاملات بتدریج گمبھیر ہوتے جارہے ہیں۔تو اس کا دوش کس کو دیں؟ شاید یہ عالم اسلام کی بے عملی کی سزا ہے۔ اسرائیل کو لاکھ امریکی اشیرباد حاصل سہی مگر وہ خود بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے نہیںہوئے۔ اس کی ہمہ جہت ترقی، بالخصوص ڈیفنس اور سویلین ٹیکنالوجی کے عروج نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور دنیائے اسلام کا جو حال ہے اس پر کیا عرض کریں، زبان کھولنا بھی محال۔ ہماری تمام تر توانائیاں اپنے ہی پیدا کردہ مسائل پر صرف ہورہی ہیں۔ دہشت گردی نے لاچار کررکھا ہے اور کل کی عظیم الشان ریاستیں بقا کی جنگ لڑرہی ہیں۔ ان کا تیل کوڑیوں کے مول ہے اور طرفہ یہ کہ درآمد و برآمد کے معاملات بھی ان کے ہاتھ سے پھسلتے جارہے ہیں۔ تیل کے بڑے امپورٹرز اپنی شرائط ڈکٹیٹ کرارہے ہیں جو ہر صورت تشویشناک ہے۔
اس سے بھی تشویشناک یہ کہ بھارت اور اسرائیل دونوں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا شکار ہونے کا ناٹک رچائے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کو شکایت ہے کہ فلسطینی اس کے مقبوضہ علاقوں میں بلاوجہ کی مداخلت کررہے ہیں اور بھارت دہائی دیتا ہے کہ اس کے ’’اٹوٹ انگ‘‘ کشمیر کو پاکستان سے شدید خطرہ ہے۔ خیر یہ تو کچھ بھی نہیں۔ پردہ غیب سے کچھ بھی برآمد ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے اور اس کی نوید وزٹ کے موقع پر مشترکہ کانفرنس میں وزیراعظم نیتن یاہو دے چکے۔ فرمایا انڈیا اور اسرائیل کی جوڑی تو آسمانوں پر بنی تھی۔ A match make in heavens۔ البتہ مودی کے اس دورے سے پاکستان کیلئے خیر کا ایک پہلو نکلتا ہوا سجھائی دیتا ہے۔ بھارت اور ایران کی عشروں پرانی دوستی میں دراڑ پڑتی نظر آتی ہے جس کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ اپنے خطبہ عید میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ائی نے ایک بے حد حوصلہ افزا بات کہی۔فرمایا کشمیر سمیت دنیا بھر میں مسلمان جہاں بھی ظلم و بربریت کے خلاف لڑرہے ہیں، عالم اسلام کا فرض بنتا ہے کہ ان کی مدد کو پہنچیں اور غاصبوں کے خلاف جہاد کریں۔ایک مدت بعد ایران نے یوں کھل کر کشمیریوں کی حمایت کی ہے جو بلاشبہ ایک اہم ڈویلپمنٹ ہے۔ پاکستان کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ ایران جیسی ثقہ برادر اسلامی ریاست کی جانب سے کشمیر کے حوالے سے دوٹوک موقف پاکستان کیلئے عید کے گرانقدر تحفے سے کم نہیں۔