فیصل آباد (نیوز ایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ) وزیرقانون پنجاب رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو غیرعوامی طریقے سے ہٹانے کیلئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاہم اگر وزیراعظم کو غیر جمہوری طریقے سے ہٹایا گیا تو ملک میں سیاسی عدم استحکام آئے گا، کیا آئین و قانون صرف نوازشریف کیلئے ہے، کچھ لوگ اپنے سیاسی مقاصد اور ملک دشمنی کیلئے سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کرناچاہتے ہیں۔
وہ فیصل آباد میں تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ پاکستان آگے بڑھنے کی پوزیشن میں آتا ہے تو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے، اب منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ نواز شریف کو غیر عوامی طریقے سے ہٹایا جائے تاہم وزیراعظم کو غیر جمہوری طریقے سے ہٹانے سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ وزیر قانون پنجاب نے کہا کہ ڈکٹیٹر 58 ٹوبی کے ذریعے حکومتوں پر قبضہ کرتے تھے، آرٹیکل 62 اور 63 کا 58 ٹو بی کے طور پر استعمال عوام کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا، الیکشن 2018 میں نواز شریف پر 58 ٹوبی لگانا یا نہ لگانا عوام کا حق ہے اور اگر عوام نے آئندہ انتخابات میں نواز شریف کو مسترد کیا تو ہم بھی تسلیم کریں گے۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ ملک دشمن ایجنڈے کے لئے سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں، کیا تمام قانون وزیراعظم پر ہی نافذ ہوں گے اور کیا آرٹیکل 62 اور 63 صرف نواز شریف کے لئے ہی بنا ہے۔ وزیر قانون پنجاب نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے صرف 3 افراد کو وزیراعظم کا ووٹ دیا، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو عوام کا ووٹ ملا تاہم اب جن سے چلا نہیں جاتا اور بات نہیں ہوتی وہ بھی منتخب وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ میں پہنچے ہوئے ہیں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ نوازشریف نے ملک سے اندھیرے دور کرنے کیلیے مخلصانہ کوشش کی اور دہشت گردی پر کاری ضرب لگائی جب کہ مخالفین کو پتہ ہے کہ 2018 میں بھی نواز شریف کو شکست دینا مشکل ہوگی۔چیرمین تحریک انصاف عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ جب اپنا ریکارڈ دینے کی باری آئی تو عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ریکارڈ نہیں ہے لیکن شریف خاندان سے 40 سال پہلے کا حساب مانگ رہے ہیں، پاکستان کے 20 کروڑ عوام اس معاملے کو سمجھتے ہیں، ملک اگر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا تو اس کا براہ راست نقصان عوام کو ہوگا۔ وزیرقانون پنجاب نے کہا کہ کچھ لوگ دانستہ اور کچھ حماقتوں کی وجہ سے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے نتائج آج تک بھگت رہے ہیں۔