• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ندوہ اور ندوی......اندازِ بیاں …سردار احمد قادری

علماء کرام کی محفل میں بیٹھیں، ان کی صحبت اختیار کریں، ان کی گفتگو سنیں، ان کے علم اور مشاہدات اور تجربات سے اپنی زندگی کی راہیں متعین کریں تو بہت کچھ سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ اب اس طرح کے علمائے دین کی تعداد دن بدن کم ہورہی ہے جو رہ گئے ہیں، وہ چراغ سحری ہیں ورنہ ایک دور تھا کہ ایک سے بڑھ کر ایک محقق، مورس مناظر، مفکر، منتظم موجود تھا۔ ان کی محفلیں بھی کیا عجب محفلیں ہوتی تھیں، ان کی گفتگو سے پھول جھڑتے تھے۔ ان کی محفل سے لوگ علم و حکمت اور آگہی کا خزینہ لے کر اٹھتے تھے۔ اب ایسے لوگوں کو دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں کہ جو اپنے مخالفین کا نام بھی ادب و احترام سے لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے مخالف عقیدے، مخالف نظریئے اور فقہ کے لوگوں کو غلط سمجھ کر ان کے غلط نظریات سے بحث کرتے تھے، ان کی شخصیت اور ذاتی کردار کو زیربحث نہیں لاتے تھے۔ ایسے لوگ اب بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔ ایسے ہی نستعلیق اور سلجھے ہوئے علمائے دین میں علمائے سلف کی ایک نشانی محترم علامہ محمد قمرالزماں اعظمی ہیں۔ مولانا اعظمی صاحب سے میرا علمی اور فکری تعلق اسی وقت قائم ہوگیا تھا جب 1984ء میں مجھے شمالی انگلستان کے ایک اسلامی مرکز میں امام و خطیب بننے کی پیشکش کی گئی۔ دراصل میں پاکستان سے قانون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آیا تھا، اگرچہ بحمدللہ تعالیٰ دینی علوم سے بہرہ ور تھا لیکن وکالت کرتا تھا اور میری خواہش قانون میں ماسٹر ڈگری یعنی ایل ایل ایم کرنے کی تھی۔ مولانا قمرالزماں اعظمی اور محترم مولانا شاہد رضا نعیمی کے مشورہ اور مجاہد ملت مولانا محمد عبدالستار خان نیازی صاحب مرحوم کے حکم کے تحت جب میں 1986ء میں بلجیم چلا گیا اور وہاں امامت اور خطابت کی ذمہ داریاں سنبھال لیں تو اس دوران برسلز یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کرلی اور اس طرح بین الاقوامی قانون میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کا میرا دیرینہ خواب بھی پورا ہوگیا۔ آٹھ سال بلجیم میں قیام کرنے اور وہاں حضرت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی رحمتہ اللہ کی سرپرستی میں مسجد العابدین اور پاکستان مسلم کمیونٹی سنٹر کی عمارت خریدکر اسے ایک خوبصورت اوردیدہ زیب مرکز کی شکل دے کر جب میں واپس انگلستان آیا تو اتفاق سے پھر مجھے مانچسٹر آنا پڑا اور یہاں پر ایک بار پھر مولانا اعظمی سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگرچہ یہ ملاقاتیں بہت زیادہ نہیں ہوتیں اور کبھی کبھی ان کے درمیان طویل وقفہ بھی آجاتا ہے لیکن جب بھی ہوتی ہیں اس ملاقات کا ایک خوشگوار تاثر تا دیر قائم رہتا ہے۔ وہ اہل زبان میں سے ہیں، زبان و بیان پر عبور حاصل ہے، وہ بولتے رہیں اورسنا کرے کوئی ! ان سے ملاقات کا ایک سبب حامد میاں بھی بنتے ہیں۔ حامد میاں جب بھی انگلستان آتے ہیں اس فقیر کو ضرور یاد کرتے ہیں۔ وہ مانچسٹر آرہے ہوں تو بتا دیتے ہیں کہ کب پہنچ رہے ہیں۔ کبھی وہ اور مولانا اعظمی ہمارے ہاں تشریف لاتے ہیں اور کبھی میں ان سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوجاتا ہوں۔ حامد میاں سے میرا بچپن کا تعلق ہے۔ حامد میاں اور میری عمر تقریباً برابر ہے۔ حامد میاں کبھی کبھار مجھے میرے بچپن کے واقعات یاد دلاتے رہتے ہیں۔ معاف کیجئے میں نے حامد میاں کا تعارف کرایا ہی نہیں۔ حامد میاں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سید حامد سعید کاظمی ہیں۔ پچھلے ہفتے حامد میاں مانچسٹر تشریف لائے تو انہوں نے مولاقا قمرالزماں اعظمی کی عیادت کرنے ان کے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ میں خود مولانا اعظمی کی مزاج پرسی کے لئے جانا چاہتا تھا لیکن اتفاق بلکہ حسن اتفاق دیکھئے کہ ایک دفعہ پھر حامد میاں ہماری باہمی ملاقات کا ذریعہ بن گئے۔ حاجی شفیع صاحب کے گھر کھانا تھا، وہاں نماز مغرب پڑھ کر ہم علامہ اعظمی کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ مولانا اگرچہ ایک طویل عرصہ سے بیمار رہے ہیں اور اب وہ آہستہ آہستہ معمولاتِ زندگی کی طرف حسب معمول آرہے ہیں ورنہ چند مہینے پہلے ان کی کمزوری اور نقاہت ان کے بقول بہت تھی۔ اب بھی ان کا جسمانی وزن بہت کم تھا لیکن ان کی گفتگو میں وہی روانی تھی اور ان کے انداز میں وہی سلاست تھی۔ ان کے لہجے کی وہ ہی کھنک تھی، ان کی زبان میں وہی کاٹ تھی، ان کی حس مزاح اور ان کا اندازِ ظرافت گفتگو میں لطافت لئے ہوئے تھا۔ ان کی محفل میں علم سے گفتگو شروع ہوتی ہے اور علم پر ختم ہوتی ہے۔ مولانا اعظمی گفتگو کررہے ہوں اور اس میں ”دارالندوہ“ کا تذکرہ نہ کریں تو یہ ممکن ہی نہیں۔ میں نے انہیں اس دفعہ پھر کریدا۔ کیا آپ واقعی ندوہ کے پڑھے ہوئے ہیں؟؟ مولانا اعظمی نے بلند آہنگ سے جواب دیا۔ بالکل نہ صرف پڑھا ہے بلکہ عربی زبان و ادب کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا ہے اور آج بھی میں اپنے اساتذہ کا استادوں کی طرح احترام کرتا ہوں اور یہ بات آپ بلاخوف وتردید لکھ سکتے ہیں ہاں البتہ ندوہ میں ہر کسی کو میرے عقائد کے بارے میں معلوم تھا اس لئے مجھے وہاں پر سب قمرالزماں اعظمی نہیں بلکہ قمرالزماں ”بدعتی“ کہتے تھے۔ میں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا تھا لیکن مولانا سید ابوالحسن علی ندوی سمیت کسی نے بھی مجھے اس پر ٹوکا نہیں اور نہ کبھی شرمندہ کیا۔ ایک دفعہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے مولانا اعظمی نے بتایا کہ میری ایک ہم سبق ساتھی سے لڑائی ہوگئی، میں نے اسے گردن سے دبوچ کر زمین پر پٹخ دیا۔ استاد آئے اور لڑائی کی وجہ پوچھی۔ میں نے بتایا کہ اس نے امام احمد رضا فاضل بریلوی کو گالی دی تھی اس لئے مارا ہے۔ اگر اس نے پھر وہی حرکت کی تو دوبارہ اس سے زیادہ ماروں گا۔ یہ سن کر استاد نے کہا اب آپ رہنے دیجئے، ہم اسے خود ماریں گے کہ اس نے ایسی گری ہوئی گندی حرکت کیسے کی؟ مولانا اعظمی کہنے لگے کہ ندوہ میں اور ندوی علماء میں دوسرے مسالک کے لوگوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ اور جذبہ اس لئے تھا کہ اس کی بنیاد دیگر مسالک کے ساتھ احترام کا رویہ رکھنے اور ان کے اختلاف کو برداشت کرنا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا شبلی نعمانی میلادالنبیﷺ کی محافل کے قائل تھے اس لئے ندوہ کے دیگر علماء نے اس کے جواز کے خلاف فتویٰ دیا تو مولانا شبلی ندوہ سے علیحدہ ہوگئے اور اعظم گڑھ میں ”دارالمصنفین“ قائم کرلیا جبکہ مولانا حمیدالدین فراہی نے ”دارالاصلاح“ قائم کرلیا جہاں سے مولانا امین احسن اصلاحی جیسے مفکر تیار ہوئے۔ ایک دفعہ مولانا شبلی نعمانی نے مولانا حمیدالدین فراہی سے کہا کہ آپ سورہٴ ابی لہب اور سورة الاخلاص میں کیسے تعلق اور باہمی ربط ثابت کریں گے۔ مولانا فراہی نے چالیس صفحات پر مشتمل اس ربط پر ایک کتابچہ لکھ دیا۔ اس طرح مولانا شبلی نعمانی بھی مولانا حمیدالدین فراہی کے علمی جلال کے قائل ہوگئے۔ رات کا سفر جاری تھا اور مولانا اعظمی کی علمی گفتگو کا تسلسل بھی، سید حامد سعید کاظمی کو واپس آکسفورڈ جانا تھا اس لئے یہ محفل پُرتکلف چائے کے ساتھ ختم کرنا پڑی اور مجھے واپس آتے ہوئے سید حامد سعید کاظمی کا یہ فقرہ بار بار یاد آرہا تھا کہ آج کل اپنے مسلک کے کسی آدمی سے بھی ہمارا مزاج نہ ملتا ہو تو ہم اسے اہلسنت و الجماعت سے ہی خارج کردیتے ہیں جس سے ہم اپنی تعداد دن بدن کم کررہے ہیں۔

تازہ ترین