ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بنا کسی جرم کے محض ایک خود ساختہ اور تصوراتی کہانی کی بنیاد پر امریکہ کی کورٹ نے مجرم قرار دے دیا مگر دنیا کی کوئی بھی عدالت، کوئی بھی ایوان اور کوئی بھی کورٹ اس ریاستی دہشت گردی کو دیکھنے سے قاصر ہے جس کے تحت عراق اور افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا وحشیانہ طریقے سے قتل عام کیا گیا اور اسی انداز میں اب ڈرون حملوں کے ذریعے روزانہ پاکستانیوں کو مارا جا رہا ہے۔ 9/11 کے ڈرامے کے نتیجے میں مسلمانوں اور اسلام کا دہشت گردی کے ساتھ تعلق جوڑنے والے امریکہ اور اس کی ڈوگر کورٹ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک باپردہ مسلمان خاتون کو باعزت بری کر دیں گے یقیناًغلط تھا۔ حافظ قرآن اور ایک باعمل اور باپردہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس امریکی معیار پر پوری اُترتی ہیں جو امریکہ کے لئے ان کا القاعدہ اور دہشت گردی سے تعلق جوڑنے کے لئے کافی ہیں۔ امریکی عدالت کے سامنے گھڑی جانے والی تصوراتی کہانی کو پیش کرنا تو محض ایک تکلف تھا۔ الزام لگایا گیا کہ جولائی 2008 میں افغانستان کی حدود میں گرفتاری کے وقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے پرس میں سے چھوٹا کیمیائی ہتھیار بنانے کے فارمولہ کے علاوہ نیویارک کے ان اہم عمارتوں کی لسٹ بھی برآمد ہوئی جن کو مستقبل میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جانا تھا۔ اس رام کہانی کے مطابق جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پکڑا گیا اور ایک افغان پولیس اسٹیشن لایا گیا تو اس نے وہاں پڑی ایک امریکی M4 رائفل اٹھائی اور قریب موجود امریکی فوجیوں پر دو فائر کئے۔ یہ دونوں فائر نشانہ پر نہ لگے اور کوئی بھی امریکی اہلکار زخمی تک نہ ہوا۔ البتہ جواب میں امریکی فوجیوں نے ڈاکٹر عافیہ پر دو فائرکئے جو نشانہ پر لگے اور ڈاکٹر عافیہ زخمی ہو کر بے ہوشی کے عالم میں گر گئیں۔ امریکی عدالت اور وہاں موجود جیوری نے اس خودساختہ کہانی کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو مجرم قرار دے دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مسلمان ”دہشت گرد“ عورت کو کتنے سالوں کی سزا دی جاتی ہے۔
یہ کیسا انصاف ہے۔ یہ کیسی عدالتیں ہیں۔ خود کو تہذیب یافتہ کہنے والوں کو اتنی شرم نہ آئی کہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے کیسے ایک معصوم عورت کو مجرم ٹھہرا دیا، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک نہتی عورت کو بنا کچھ کیے دہشت گرد ٹھہرا دیا جائے مگر اس ریاستی دہشت گردی کو یکسر نظر انداز کیا جائے جس کے تحت ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد مسلمان عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دردی سے کھلے عام اسلحے، جدید میزائل اور ہوائی حملوں سے مارا گیا۔ ایسی ہی خون کی ہولی افغانستان میں کھیلی گئی اور لاکھوں معصوموں کو ڈیزی کٹرز ،بی 52 بمبار طیاروں اور دوسرے جدید فوجی اسلحہ کی مدد سے شہید کیا گیا۔
گذشتہ کچھ سالوں سے ڈرون حملوں سے پاکستان کے قبائلی علاقے کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اب تک سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ اس ریاستی دہشت گردی پر سب خاموش کیوں ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ نے تو امریکہ کی تصوراتی کہانی میں بھی کسی کی نہ جان لی اور نہ ہی کسی کو زخمی کیا پھر بھی وہ مجرم ٹھہری مگر ہر طرف مسلمانوں کا خون بہانے والوں کے خلاف دنیا بھر میں یہ کیسی زبان بندی ہے۔ دنیا بھر کی عدالتیں امریکی دہشت گردی کو دیکھنے سے قاصر کیوں ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس کے ممبر ممالک اس ظلم پرکیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کی طرح دنیا بھرکے نمائندہ ایوان امریکہ کی ریاستی دہشت گردی اور مسلمانوں کے قتل عام پر اس مجرمانہ سردمہری کا شکار کیوں ہیں۔ بے شرمی اور بے غیرتی کی حد تو یہ کہ افغانستان، عراق اور حتیٰ کہ پاکستان کی حکومتیں اس عالمی دہشت گردی پر چپ سادھے بیٹھی ہیں۔
امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کو ”انصاف“ دے دیا۔ پاکستان کی حکومت، ہماری پارلیمنٹ، یہاں کے خفیہ
ادارے، سیاسی جماعتیں اور ہماری عدالتیں کب جنرل مشرف سمیت ان تمام افرادکو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے جنہوں نے پاکستان کی بیٹی اور اس قوم کی آبرو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو دوسرے اور کئی پاکستانیوں کے ہمراہ امریکیوں کے ہاتھوں محض ڈالروں کے عوض بیچ ڈالا۔ وہ کون سے اعلیٰ فوجی و سول عہدیدار تھے جنہوں نے اس وقت کے آمر کے حکم پر پاکستان کے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کس بے غیرتی کے ساتھ اپنے ہی لوگوں اور اپنی ہی بیٹی کو امریکہ کے حوالے کر دیا۔ ان ظالموں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تین کمسن معصوم بچوں کو بھی امریکی درندوں کے آگے ڈال دیا۔ ان بچوں میں اگرچہ ڈاکٹر عافیہ کا بڑا بیٹا کئی سال افغانستان میں جیل میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے کے بعد گزشتہ سال پاکستان آ چکا ہے مگر کسی کو کچھ خبر نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کا چھوٹا بیٹا اور بیٹی کہاں ہیں۔ اگر پاکستان اور اس کا قانون اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتا تو دشمن سے کیا گلہ۔ اگر ہم نے ہی اپنی غیرت کا سودا کر لیا ہے تو دوسرے ہماری عزت کیوں کر کریں گے۔ یہ شاید ہماری سوئی ہوئی اور ڈالروں کے عوض بکی ہوئی غیرت کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں کافی شدت آ چکی ہے۔ روزانہ درجنوں معصوموں کو ان ڈرون حملوں سے شہید کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود اب تو پہلے کے برعکس رسمی ”احتجاج“ بھی ختم ہو چکے ہیں۔ نجانے اس ذلت آمیز رویہ میں کب تبدیلی آئے گی۔ پاکستان کے علاقے پر کسی بیرونی حملے کو روکنا تو فوج کی آئینی ذمہ داری ہے اور اسکے لئے تو اس کو کسی وزیر یا مشیر کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں۔ پاکستانی علاقہ میں جارحیت کرنے والا کوئی بھی غیر ملک ہمارا دوست نہیں ہو سکتا۔ ہمیں دہشت گردی کے عذاب میں جھونک کر اور ہمیں امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ کی گردان میں لگا کر اب امریکہ اور برطانیہ، افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کرنے اور انہیں سیاسی عمل کے ذریعے رام کرنے کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے پاکستان کے اندردھشتگردی کے خاتمے کی بات کرنے والے سیاستدانوں، تجزیہ کاروں اور سابق جرنیلوں کو ”طالبان“ کی گالی دینے والے آج بات چیت کے ذریعے امن قائم کرنے کی مغرب کی اس کوشش پر خاموش کیوں ہیں۔ آدھے تیتر آدھے بٹیر اب بولتے کیوں نہیں۔