پاکستان کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 8 سال کے طویل عرصے امریکی عقوبت خانے میں جسمانی اور ذہنی اذیتیں پہنچانے کے بعد جیورسٹ نے اسے مستوجب سزا قرار دیا ہے۔ پہلے اسے افغانستان میں محبوس رکھا گیا پھر امریکہ لے جایا گیا اس کے معصوم بچے کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں کچھ پتہ نہیں۔ ایک ماں پر اپنے بچوں کی جدائی کس قدر شاق گزرتی ہے عافیہ صدیقی نے یہ طویل عرصہ کیسے گزارا ہو گا تصور کرکے طبیعت ملول ہو جاتی ہے۔ جمہوریت کی چیمپئن امریکی حکومت کسی بھی ضابطے اور قانون کی پابندی نہیں کر رہی ، ہر مقدمہ میں مدعاعلیہ کو دفاع کا موقع دیا جاتا ہے اس کے وکلاء خود پوری فائل کا مطالعہ کرتے ہیں گواہ پیش ہوتے ہیں۔ جب تک جرم ثابت نہ ہو الزام پر سزا نہیں دی جاتی۔ جس دن سے جیورسٹ نے اپنا فیصلہ سنایا پاکستان میں مختلف سیاسی پارٹیز نے اس ظلم کے خلاف ریلیاں نکالی ہیں خواتین نے زبردست احتجاج کیا ہے حکومت نے بھی عافیہ صدیقی کو واپس پاکستان لانے کی کوششیں تیز کردی ہیں لیکن قومی رہنماؤں کا خودداری سے کام لیتے ہوئے اخلاقی دباؤ بھی ایسے موقعوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ امریکہ کے وہائٹ ہاؤس میں ہر سال سربراہان مملکت کے اعزاز میں ایک ضیافت ناشتہ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کا میزبان خود صدر امریکہ ہوتا ہے اس مرتبہ ناشتہ کی اس تقریب میں صدر آصف علی زرداری بوجہ مصروفیت اور زمینی حالات کے شرکت نہیں کر سکے۔ پاکستانی مندوبین میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی، سینیٹ کے چیئرمین فاروق نائک اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے اس تقریب میں شرکت کی۔ یہ خبر باعث افسوس اور قومی وقار کے منافی ہے کہ اول تو صدر بارک اوبامہ کی ٹیبل پر کسی پاکستانی رہنما کو جگہ نہیں دی گئی پروٹوکول کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرکے حسین حقانی کو 135 نمبر کی ٹیبل پر بٹھایا گیا۔
جبکہ چیئرمین سینیٹ فاروق نائک کو 28 نمبر کی ٹیبل پراور چوہدری پرویز الٰہی کو ٹیبل نمبر 4 پر جگہ مل گئی۔ ہر ملک کا سفیر ملک اور قوم کا نمائندہ ہوتا ہے جبکہ سینیٹ کے چئیرمین کو کم ازکم اسپیکر کانگریس محترمہ پالوسی کی ٹیبل پر بٹھایا جانا چاہئے تھا کیا اچھا ہوتا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ جو ظلم و زیادتی کی گئی ہے اس پر احتجاج کے طور پر اس تقریب کا بائیکاٹ کیا جاتا۔ ہرچند کہ ہم اپنے ان لیڈروں کا قائد اعظم کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتے جو گورنر بمبئی لارڈ ولنگڈن کے ڈنر ٹیبل سے اٹھ کرچلے آئے تھے کیونکہ گورنر نے محترمہ رتی جناح کے لئے کہا کہ انہیں شاید سردی لگ رہی ہے تو ان کے لئے شال کا انتظام کیا جائے، قائد اعظم نے وائسرائے لارڈ ویول کی دعوت میں شرکت سے معذرت کرلی تھی کیونکہ جب صدر کانگریس پنڈت جواہر لال نہرو نے کیبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کیا تو قائد اعظم نے وائسرائے لارڈ ویول کو مشورہ دیا کہ کانگریس اپنے معاہدہ سے منحرف ہو گئی ہے وائسرائے مسلم لیگ کو حکومت بنانے کی دعوت دیں وائسرائے کا جھکاؤ کانگریس کی طرف تھا اس نے مسلم لیگ کو حکومت بنانے کا موقع نہیں دیا قائد اعظم نے راست قدم کا اعلان کیا اور اس کے بعد لارڈ ویول کی کسی ضیافت میں شریک نہیں ہوئے۔ سیاسی مسائل گفت و شنید سے حل کئے جاتے تھے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ امریکہ ایک سپر طاقت ہے بغیراس کی امداد کے ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ کے افغانستان کے چلے جانے کے بعد وہاں حالات کیا رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ صدر حامد کرزئی کی حکومت کابل کے محل تک محدود ہے اس کے بعد ہر شہر، ہر علاقے، ہر قریے میں ایک سردار کی حکومت ہے جو مرکز میں اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کا خون بہانے میں دریغ نہیں کریں گے۔ افغانستان کی تاریخ متزلزل رہی ہے شروع میں ملکہ ثریا اور امان اللہ خان کو ملک بدر کیا گیا، سردار داؤد کا قتل طرہ کا قتل غرضیکہ کوئی دور امن چین و ترقی کا نہیں رہا۔ امریکہ کی افواج کو افغانستان سے جانا ہی پڑے گا امریکہ کو عراق افغانستان کی جنگ بہت مہنگی پڑی ہے امریکی فوجیوں کے تابوت جب واشگٹن پہنچتے ہیں تو صرف ڈیموکریٹک نہیں بلکہ اب تو ری پبلکن بھی اس جنگجویانہ پالیسی سے بیزار لگتے ہیں۔ افغانستان کوچاہئے کہ بیرونی تسلط سے چھٹکارا حاصل کرنے سے پہلے اپنے گھر کو سنبھالیں اور یہ اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکے گا جب تک افغانستان میں تعلیم عام نہیں ہوگی۔ مذہب کے معاملے میں انتہا پسندی کا رجحان ناکامی اور بربادی کا سبب بن جاتا ہے جب جرأت کے ساتھ خلوص اور بے غرضی شامل ہو جائے تو انسان میں بے پناہ اخلاقی جرأت پیدا ہو جاتی ہے وقار اور خودداری شیوہ مردانگی ہے ہر چند کہ یہ فعل غیر اخلاقی ہے لیکن عراقی صحافی منتظر زیدی نے امریکی صدر جارج بش کے چہرے پر جوتا مار کر اسے دنیا کے سامنے رسوا کر دیا۔ جارج بش اپنا آخری خطاب کرنے بغداد پہنچے تھے۔
جارج بش نے اپنی جنگجویانہ پالیسی سے عراق میں جو تباہی مچائی، زیدی نے اس کا بڑا معقول طریقے سے بدلہ لیا۔ بش بڑی مہارت سے جوتے کی زد سے خود کو بچا گئے جوتا امریکی جھنڈے کو جا کر لگا جو اور بھی بے عزتی کا باعث بنا۔ اسرائیل سپریم کورٹ کی صدر Beinisch تو خود کو بچا بھی نہ سکیں جب یروشلم میں ایک شخص نے ان پر جوتا مارا۔ جوتا بینش کے سر اور پیشانی پر جا کر لگا وہ گر گئیں اور ان کا چشمہ ٹوٹ گیا۔ دونوں آدمی جنہوں نے جوتا مارا تھا موقع پر گرفتار ہو گئے انہیں سزا بھی ہوئی لیکن امریکی صدر ہو یا اسرائیل دنیا میں نفرت کا نشان بن گئے۔ بزرگوں کا قول ہے کہ دوسرے کے سامنے اتنا مت جھکو کو تمہیں لوگ ذلیل سمجھنے لگیں۔ محسن بھوپالی نے دل کی گہرائی سے کہا تھا۔
غیرت اہل چمن کو کیا ہوا۔ چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا