آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے بہت سے دوست اور کرم فرما آج کل بہت پریشان ہیں۔ وہ اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ موجودہ حکومت کس دیدہ دلیری سے این آر او پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظرانداز کر رہی ہے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے سے گریزاں ہے۔ یہ تشویش بالکل بجا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد ضرور ہونا چاہئے ورنہ قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو سکتی لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کیا عدالتی فیصلوں کی دھجیاں بکھیرنے کی ذمہ دار صرف حکومت ہے؟ کیا ہم خود بھی کئی عدالتی فیصلوں کو محض اس لئے نظرانداز نہیں کر دیتے کہ وہ ہمیں ذاتی طور پر پسند نہیں آتے۔ اس ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہ ہونے کی وجہ دراصل ہمارے اپنے سماجی رویئے ہیں اور حکومت کا رویہ دراصل ہمارے سماجی رویوں کی ایک جھلک ہے۔
یاد کیجئے کہ مارچ 2006ء میں سپریم کورٹ نے کیا فیصلہ دیا تھا؟ لاہور میں پتنگ بازی کے باعث بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کو روکنے کیلئے سپریم کورٹ نے پورے ملک میں پتنگ بازی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کو یہ پابندی بالکل پسند نہ آئی کیونکہ وہ ہر سال بسنت کے موقع پر لاہور جا کر موج مستی کیا کرتے تھے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ اس موج مستی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے حق میں تھے لیکن انہیں حکم دیا گیا کہ وہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی کوشش نہ کریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اہل لاہور نے بڑے اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ بسنت منائی، کچھ دانشوروں نے عدالتی فیصلے کو رجعت پسندی کا نیا انداز قرار دے کر موج مستی کو معاشرے کا ثقافتی حق قرار دیا۔ پتنگ کی ڈور سے معصوم بچوں کے گلے کٹتے رہے، ٹریفک حادثات بھی جاری رہے اور دھاتی ڈور کے استعمال کے باعث بجلی کے نظام میں خلل اندازی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ مشرف حکومت کی روشن خیال اعتدال پسندی سپریم کورٹ کے فیصلے پر غالب آ گئی۔ مشرف حکومت رخصت ہو چکی لیکن سپریم کورٹ کا 2006ء کا فیصلہ برقرار ہے۔ ہمارے قانونی ماہرین آج کل ہر معاملے میں 1996ء میں الجہاد ٹرسٹ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو بطور حوالہ پیش کرتے ہیں تو پھر 2006ء میں پتنگ بازی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ کیسے غیرموثر ہو سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے ایک دفعہ پھر 2010ء میں پتنگ بازی پر پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
میں ذاتی طور پر پتنگ بازی اور بسنت کے خلاف نہیں لیکن اس موج مستی میں معصوم بچوں کی گردنیں کاٹنے کو میں برداشت نہیں کر سکتا اور اسی لئے میں نے 2006ء میں بھی عدالتی فیصلے کی حمایت کی تھی اور 2010ء میں بھی عدالتی فیصلے کی حمایت کرتا ہوں۔ 2010ء کے عدالتی فیصلے پر میرے کچھ عزیز دوستوں کے ردعمل نے ایک دفعہ پھر اس منفی سماجی رویئے کو بے نقاب کیا ہے جو ہمیں حکومت کے طرز عمل میں بھی نظر آتا ہے۔ کل رات لاہور سے ایک وکیل دوست نے فون کیا۔ فرمانے لگے کہ اگلی اتوار کو پرانے لاہور میں ایک مشترکہ دوست کے گھر کی چھت پر پتنگ بازی اور کئی قسم کے پکوانوں کا اہتمام ہے اور مجھے ہر صورت میں اس موج مستی کا حصہ بننا ہے۔ میں نے کچھ آئیں بائیں شائیں کی تو موصوف نے میری آتش شوق کو بھڑکانے کیلئے کہا کہ فکر نہ کریں آپ کی پسندیدہ غزلیں سنوانے کا اہتمام بھی کر لیا جائیگا۔ میں نے بڑے کھسیانے انداز میں اپنے وکیل دوست کو پتنگ بازی کے متعلق عدالتی فیصلہ یاد دلایا اور کہا کہ آپ تو عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں بہت آگے آگے رہے ہیں اور روزانہ این آر او کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا مطالبہ بھی کرتے ہیں تو کم از کم آپ عدالتی فیصلے کو پتنگ کی طرح فضا میں اڑا کر اس کا تماشہ نہ بنائیں۔ دوست کو میری بات پسند نہ آئی اور انہوں نے کچھ جلی کٹی سنا کر فون بند کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی ذاتی طور پر پتنگ بازی اور بسنت کے خلاف نہیں ہیں لیکن وہ صرف معصوم بچوں کی گردنوں کو تیز دھار ڈور کی گرفت سے بچانے کیلئے عدالتی فیصلے کا احترام چاہتے ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے پنجاب کے عوام، دانشوروں، سیاستدانوں اور خاص طور پر نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت کو بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کے باعث دس پندرہ بچوں کی گردنیں کٹ جانے کی کوئی پروا نہیں۔ وہ عدالتی فیصلے کو اپنی موج مستی کے خلاف ایک سازش سمجھتے ہیں اور اہل پنجاب کی اکثریت اس سال بھی پرویز مشرف بن کر پتنگ بازی کے خلاف عدالتی فیصلے کا قطعاً احترام نہیں کرے گی۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں این آر او پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر فوری عملدرآمد چاہئے کیونکہ ہمیں آصف علی زرداری کی شکل پسند نہیں لیکن پتنگ بازی کے خلاف عدالتی فیصلے کو ہم اپنے جوتے کی نوک پر لکھتے ہیں کیونکہ یہ فیصلہ ہمیں پسند نہیں۔ کیا یہ منافقت نہیں؟ کیا یہ توہین عدالت نہیں؟
افسوس کہ ہم عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی کی بات صرف وہاں کرتے ہیں جہاں ہمیں اپنا ذاتی فائدہ یا اپنی بے قابو انا کی تسکین نظر آتی ہے۔ یہی سپریم کورٹ بار بار بھارتی دہشت گرد سربجٍیت سنگھ کی طرف سے رحم کی اپیل خارج کرتی ہے اور 14پاکستانیوں کے قتل کے الزام میں اسے پھانسی کی سزا برقرار رکھتی ہے لیکن سزا پر عملدرآمد نہیں ہوتا کیونکہ بھارت کی ناراضگی کا خطرہ ہے۔ یہی سپریم کورٹ کہتی ہے کہ چینی 40روپے فی کلو فروخت کی جائے۔ پاکستان کے کسی کونے میں اس عدالتی حکم پر عمل نہیں ہوتا۔ میں آپ کو ایسے کئی فیصلے گنوا سکتا ہوں جو سپریم کورٹ نے گزشتہ چند سال میں جاری کئے اور ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ کہیں بیوروکریسی، کہیں خفیہ ادارے، کہیں صنعت کار، کہیں منافع خور سرمایہ دار، کہیں میڈیا اور کہیں اس ملک کا عام آدمی ان عدالتی فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس ملک میں صرف پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے عدالتی فیصلوں کو مسترد نہیں کیا بلکہ ہم سب نے بھی کئی عدالتی فیصلوں کی دھجیاں بکھیری ہیں۔ ہمارے اندر بھی کوئی نہ کوئی مشرف اور زرداری بیٹھا ہوا ہے۔ ہمیں صرف حکومتوں کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔