وہ 22فروری 1974کی ایک خوشگوار سہ پہر تھی۔ لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کا کانفرنس کاجشن برپا تھا۔ خصوصی طیارہ شیخ مجیب الرحمن کو بھی لےکر پہنچ چکا تھا۔ اسی دن پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا تھا اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سربراہی کانفرنس میں ایک زوردار قسم کا خطاب کیا تھا۔ یوں تو بھٹو صاحب کی سب ہی تقریریں جاندار ہوا کرتی تھیں، مگر اس دن والی صحیح معنوں میں خطابت کا شاندار نمونہ تھی۔ راقم اپنے گاوں کرتارپور (ضلع نارووال) میں تھا، حویلی میں 20/25دیہاتی جمع تھے۔ والد صاحب بھی موجود تھے۔ بیچ میں مختصر سی میز پر ریڈیو دھرا تھا۔ بھٹو صاحب کی تقریر انگریزی میں تھی۔ مگر ان پڑھ دیہاتی یوں گوش برآواز تھے کہ گویا حرف بحرف سمجھ رہے ہوں۔ ایسے میں گاوں کا ہی ایک آدمی ایک اجنبی بزرگ کے ہمراہ آیا اور والد صاحب سے بولا، شاہ جی ! آپ کا مہمان آیا ہے، رسمی سلام دعا کے بعد نووارد بھی ایک چارپائی پر بیٹھ گیا۔ تقریر ختم اور مجلس برخاست ہوئی تو مہمان کی طرف متوجہ ہوئے مہندی لگی داڑھی60/65برس کے بزرگ ، کرتا تہمد میں ملبوس، سر پر ڈھیلی سی پگڑی، کندھے پر چادر اور پاوں میں دیسی وضع کا جوتا، بے آرامی اور سفر کی تھکان ان کے انگ انگ سے ٹپک رہی تھی۔
والد صاحب نوارد کو پہچان نہیں پائے تھے۔ مگر منہ بھر کے پوچھنا بھی نامناسب تھا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ مہمان نے خود ہی گفتگو کا آغاز کردیا بولے ’’شاہ جی! آپ کا گاوں بڑی مشکل سے ملا۔ اللہ کا شکر ہے کہ پوچھتا پوچھتا پہنچ گیا۔ٔ‘‘ پھر بولے، ’’آپ نے مجھے پہچانا تو نہیں ہوگا؟ یقیناً آپ پہچان بھی نہیں سکتے۔ یہ کوئی آج کی بات تھوڑی ہے۔ 26برس ہونے کوآئے۔‘‘ والدصاحب بولے، ’’مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو پہچان نہیں پایا۔ فرمائیے کہاں سے تشریف لائے اور یہ26برس کا کیا قصہ ہے؟‘‘ دفعتاً نووارد چارپائی کی سلائی پکڑ کر تن کر بیٹھ گیا اور بولا، ’’پاکستان بننے کے بعد آپ کو ہڑپہ (ساہیوال) میں زمین الاٹ ہوئی تھی نا۔‘‘ والد صاحب بولے۔ ’’جی ہاں آپ نے بجا فرمایا۔ وہیں الاٹ ہوئی تھی۔ دو برس وہاں رہے بھی۔ مگر چونکہ بھائی اور دیگر برادری کیلئے رقبہ میسر نہ آسکا تھا تو ہم ہڑپہ چھوڑ کر اس گائوں میں آگئے جہاں سب کیلئے وافر متروکہ اراضی موجود تھی‘‘۔ اجنبی کی آنکھوں میں چمک آگئی اور بولے ’’تو جناب! آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ہڑپہ میں الاٹ کی گئی زمین پر مقامی لوگوں نے قبضہ کررکھا تھا جسے چھڑوانے کیلئے آپ نے پولیس کی مدد لی تھی۔‘‘ یہ سن کر والد صاحب کھل سے گئے اور بولے، ’’ہاں یار سب یاد ہے۔ کہیں تم فلاں پٹواری تو نہیں ہو؟‘‘ نووارد بولا، ’’نہیں جناب، میں وہ پٹواری نہیں، بلکہ فلاں حوالدار ہوں۔ جو اس وقت ہڑپہ تھانے میں تعینات تھا، جسے لوگ ملک صاحب کہتے تھے۔ اور قبضہ دلانے میں آپ کی مدد کی تھی۔‘‘
اس انکشاف پر دونوں بزرگ ایک بار پھر اٹھ کر بغل گیر ہوگئے اور کچھ توقف کے بعد والد صاحب سے کہا کہ ’’آپ نہیں بھولے ہوں گے کہ قبضہ کے حق الخدمت کے طور پر میں نے آپ سے 50روپے فی ایکٹر کے حساب سے پیسے ادھار لئے تھے‘‘۔ والد صاحب مسکرائے اور کہا کہ ’’آپ سب ہی کو یہی کہتے تھے۔ جس سے بھی پیسے لیتے، یہی کہتے کہ اتنے پیسے ادھار دے دو تو تمہارا کام ہوجائے گا، ورنہ راستہ ناپو،‘‘ حوالدار صاحب بولے کہ ’’جناب! میں کچھ غلط نہیں کہتا تھا، میں جس سے بھی پیسے لیتا، رقم اور اسامی کا نام پتہ اپنی خاص ڈائری میں لکھ لیتا تھا۔‘‘ پھر بیگ سے بوسیدہ سی نوٹ بک نکالی اور بولے اس پر 320لوگوں کے نام اور پتے درج ہیں۔ 318کو نمٹا چکا آپ آخری آٹھ اسامیوں میں شامل ہیں‘‘ اور اس کے ساتھ ہی کاپی پر لکھی رقم والد صاحب کے ہاتھ پررکھ دی اور کہا کہ ’’یہ قبول فرمایئے اور مجھے معاف کر دیجئے۔ آپ کا قرض ادا ہوگیا۔‘‘
ہم سب اس انوکھے پولیس والے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ والد صاحب بولے، ’’ملک صاحب! مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا، آپ ادھار کہہ کر پیسے لیتے تھے تو ہم سمجھتے تھے کہ پولیس والا مذاق کررہا ہے۔ مگر آپ تو سچ مچ قرض چکانے پہنچ گئے، اور وہ بھی ربع صدی بعد‘‘ ملک صاحب نے داڑھی دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے لیتے ہوئے کہا ، ’’قبلہ، میں صرف پانچ جماعت پاس ہوں۔ انگریز کے زمانے میں سپاہی بھرتی ہوا تھا اور سب انسپکٹر کے عہدے سے پنشن پائی ہے۔ سوہنے رب نے مجھے چار پتر دیئے۔ تنخواہ میں گزارہ مشکل تھا، سو پیسے لیتا رہا، مگر ہمیشہ اس عزم اور یقین کے ساتھ کہ قرض لے رہا ہوں۔ جب اللہ نے توفیق دی، چکا دوں گا جس سے جو لیا، باقاعدہ حساب رکھا۔ بیٹے ماشااللہ اچھا پڑھ لکھ گئے، اور خوب سیٹل بھی ہوگئے۔ اب جب ریٹائر ہوگیا ہوں، اور رب سوہنے نے کوئی کمی بھی نہیں چھوڑی تو قرض اتارنے نکل کھڑا ہوا ہوں۔ ان326لوگوں کے پیچھے جانا کچھ آسان کام نہیں تھا۔ آدھے تو اللہ کو پیارے ہوچکے۔ ان کے وارثوں کو ادائیگی کی۔ آپ کی طرح بعض نے ٹھکانے بدل لئے جنہیں ڈھونڈھ نکالنے میں خاصی دشواری ہوئی بس یہ جو دوچار باقی رہ گئے ہیں، دعا کریں کہ وہ بھی مل جائیں۔ تاکہ قبر میں جانے سے پہلے پلا صاف ہوجائے۔‘‘
یہ بھولی بسری کہانی ہم سب کیلئے فوڈ فار تھاٹ ہے جو میاں محمد نواز شریف کے فیصلے کے بعد راقم کو پھر سے یاد آگئی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ احتساب کے عمل کو بڑھاوا دے گا۔ بدعنوانی میں ملوث ہر چھوٹے بڑے سے پوچھ گچھ ہوگی تاکہ وطن عزیز کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کرپشن کی لعنت سے پاک کیا جاسکے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ گڑبڑ ہم سب نے کی ہے۔ کسی نے کم، کسی نے زیادہ۔ چنانچہ بہتر ہوگا کہ احتساب کا ہاتھ دامن تک پہنچنے سے پہلے ہی ناحق اور ناجائز کمائی حق داروں کو لوٹا دیجئے اور اگر یہ جرم ریاست کے خلاف کیا ہے تو سرکاری خزانے میں جمع کرا دیجئے۔ بیشتر اس کے کہ خواری ہو ، سرخرو ہوجائیے۔ ورنہ مرنا تو پھر ایک دن ہے ہی، وہاں حساب دینا مشکل ہوجائے گا۔