(دوسری قسط)
ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات اور ان کے مختصر جوابات
دہشت گردی کے موجودہ خون آشام واقعات کو دیکھ کر ذہنوں میں چند سوالات اُٹھتے ہیں اور دنیا بھر کے عوام و خواص اِسلام سے متعلق اِن سوالات کی روشنی میں تسلی بخش وضاحت مانگتے ہیں۔ اِس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ ان تمام سوالات کا تفصیلی ،مدلّل اور دو ٹوک جواب دیا جائے۔ ذیل میں ترتیب وار پہلے اِن سوالات کے ساتھ مختصر جوابات دیئے جارہے ہیں اور اِنہی مختصر جوابات کی تفصیل دستاویز کے آئندہ اَبواب میں بالترتیب پیش کی جائے گی۔
-1اِس سلسلے میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا کسی جماعت کا خود کو حق پر سمجھتے ہوئے اپنے عقائد و نظریات کے فروغ و تسلط اور دوسروں کے عقائد کی اِصلاح کے نام پر طاقت اِستعمال کرنا جائز ہے؟ کیا نظریاتی اِختلاف رکھنے والوں کو قتل کرنے، ان کے مال لوٹنے اور اُن کی مساجد، مذہبی مقامات اور شعائر کو تباہ کرنے کی اسلام میں گنجائش ہے؟ اگر نہیں، تو اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے اسلام نے کیا سزا مقرر کی ہے؟
…اسلام اَمن و سلامتی اور محبت و مروّت کا دین ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان وہی شخص ہے جس کے ہاتھوں مسلم و غیر مسلم سب بے گناہ انسانوں کے جان و مال محفوظ رہیں۔انسانی جان کا تقدس و تحفظ شریعت اسلامی میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے ۔ کسی بھی انسان کی ناحق جان لینا اور اُسے قتل کرنا فعل حرام ہے بلکہ بعض صورتوں میں یہ عمل موجب ِ کفر بن جاتا ہے ۔ آج کل دہشت گرد اپنے عقائد و نظریات مسلط کرنے اور اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی ناکام کاوش میں جس بے دردی سے خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے گھروں ، بازاروں ، عوامی اور حکومتی دفاتر اور مساجد میں بے گناہ مسلمانوں کی جانیں لے رہے ہیں وہ صریحاً کفر کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ دنیا اور آخرت میں ان کے لئے ذلت ناک عذاب کی وعید ہے۔ دہشت گردی فی نفسہ کافرانہ فعل ہے اور جب اس میں خودکشی کا حرام عنصر بھی شامل ہوجائے تو اس کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کتاب میں درجنوں آیات اور بیسیوں احادیث کے ذریعے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ مسلمانوں کا قتل ِ عام اور دہشت گردی اسلام میں قطعی حرام بلکہ کفریہ اعمال ہے۔ کبار ائمہ تفسیر و حدیث اور فقہاء و متکلمین کی تصریحات سمیت چودہ سو سالہ تاریخِ اسلام میں جملہ اہلِ علم کا فتویٰ یہی رہا ہے ۔ اپنی بات منوانے اور دوسروں کے موقف کو غلط قرار دینے کے لئے اسلام نے ہتھیار اُٹھانے کی بجائے گفت و شنید اور دلائل سے اپنا عقیدہ و موقف ثابت کرنے کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ ہتھیار وہی لوگ اُٹھاتے ہیں جن کی علمی و فکری اساس کمزور ہوتی ہے اور وہ جہالت و عصبیت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو اسلام نے باغی قرار دیا ہے جن کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
-2اِس ضمن میں دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسلم ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے کیا حقوق ہیں؟
…اسلام صرف مسلم ریاست کے مسلمان شہریوں کے جان و مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کی ہی ضمانت نہیں دیتا ہے، شریعت اسلامیہ میں مسلم ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے حقوق مسلم شہریوں کی طرح ہی ہیں، بحیثیت اِنسان ان میں کوئی فرق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی قوانین میں مسلم اور غیر مسلم شہری قصاص اور دیت میں برابر ہیں۔ غیر مسلم کو مسلم معاشرے میں مکمل شخصی اور مذہبی آزادی حاصل ہے۔ غیرمسلم شہریوں، ان کے سفراء اور ان کی املاک و عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اسی طرح تاجروں کے جان و مال کا تحفظ بھی اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے لہٰذا اسلام کسی طور بھی پُر اَمن و غیر متحارب غیر مسلم شہریوں پر حملے کرنے والے، انہیں اغواکرکے تاوان کا مطالبہ کرنے والے اور انہیں حبسِ بے جا میں رکھ کر ذہنی و جسمانی اذیت دینے والے اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
-3تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام میں انسانی جان کی حرمت پر واضح اَحکامات موجود ہیں؟ کیا غیر مسلم عالمی طاقتوں کی ناانصافیوں اور مظالم کے ردّعمل کے طور پر انتقاماً بے قصور اور پر امن غیر مسلم شہریوں اور سفارت کاروں کو اغوا کرنا اور قتل کرنا جائز ہے؟
…انسانی جان کی عزت و حرمت پر اسلامی تعلیمات میں کس قدر زور دیا گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوران جنگ بھی اسلام غیر متحارب لوگوں کے قتل عام کی اجازت نہیں دیتا۔ میدان جنگ میں بچوں ، عورتوں ، ضعیفوں ، بیماروں ،مذہبی رہنماؤں اور تاجروں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہتھیار ڈال دینے والے، گھروں میں بند ہوجانے والے یا کسی کی امان میں آجانے والے لوگوں کو بھی قتل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی عامة الناس کا قتل عام کیا جاسکتا ہے۔ عبادت گاہوں ، عمارتوں ، بازاروں یہاں تک کہ کھیتوں ، فصلوں اور درختوں کو بھی تباہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ایک طرف حالت جنگ میں بھی اس قدر احتیاط پر مبنی احکام و قوانین ہیں اور دوسری طرف دہشت گردوں کی ایسی کارروائیاں جو بلا امتیاز مذہب و ملت، پُر اَمن لوگوں، عورتوں، بچوں اور مساجد میں عبادت کرنے والے نمازیوں کے قتل عام کا باعث بن رہی ہوں، پھر بھی وہ اسلام کا نام لیں اور جہاد کی بات کریں، اس سے بڑا تضاد تو شاید چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ غیر مسلم شہریوں اور غیر ملکی سفارت کاروں کو قتل کرنا یا اُنہیں حبس بے جا میں رکھنا قطعاً جائز نہیں۔ جو ایسا کرتا ہے اُس کا اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ سے کوئی تعلق نہیں۔
-4چوتھا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلم حکمرانوں کی غیراسلامی پالیسیوں اور فاسقانہ طرز ِ عمل کے باعث اُنہیں حکومت سے ہٹانے، اپنے مطالبات منوانے یا اُنہیں راہ راست پر لانے کے لئے مسلح جدوجہد کی جاسکتی ہے ؟ کیا آئینی طور پر قائم کی گئی مسلم حکومت کے نظم اور عمل داری (writ) سے بغاوت جائز ہے ؟ نیز حکمرانوں کی اِصلاح اور تبدیلی کا جائز طریقہ کار کیا ہونا چاہئے؟
…اسلام صرف مذہب ہی نہیں ایک مکمل دین ہے۔ اسلام نے جہاں زندگی کے ہر شعبہ کے لئے ضابطہ دیا ہے وہاں معاشرے کی اجتماعیت کے تحفظ کا اہتمام بھی کیا ہے ۔ اس کے لئے ریاستی اداروں کے حقوق و فرائض طے کردیئے گئے ہیں۔ مسلم ریاست کے جملہ شہریوں کو ریاستی قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند بنایا گیا ہے ۔ انہی ضابطوں میں سے ایک یہ ہے کہ مسلم ریاست اور معاشرے کو امن اور بقائے باہمی کا نمونہ ہونا چاہئے۔ اس لئے مسلم ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے، اُس کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرنے اور اس کے خلاف اِعلانِ جنگ کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔ اس عمل کو شرعاً بغاوت اور خروج کا نام دیا گیا ہے۔خدانخواستہ اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دہشت گردی اور بغاوت کے لئے بنا جواز بنانے کی اجازت نہیں۔ احادیثِ رسول اکی روشنی میں مسلم ریاست کے خلاف بغاوت کا جواز اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک حکمران کفرِ بواح (صریح ، اعلانیہ اور قطعی کفر) کے مرتکب نہ ہوں اور اقامت صلوة و دیگر اسلامی احکامات و شعائر کی بجا آوری کو بذریعہ طاقت روکنا نہ شروع کردیں۔
آیات و اَحادیث اور تصریحاتِ ائمہ تفسیر و فقہ کی روشنی میں بغاوت کی حرمت و ممانعت واضح ہے۔ اس سلسلے میں احادیث کے علاوہ صحابہ کرام، تابعین ، اتباع التابعین ، امام اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور دیگر جلیل القدر ائمہ دین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فتاویٰ کی روشنی میں یہ امر واضح ہے کہ مسلم ریاست کے خلاف بغاوت کی قطعی ممانعت پر اِجماع ِ اُمت ہے اور کسی مذہب و مسلک میں بھی اس پر اختلاف نہیں ہے ایسے خروج اور بغاوت کو جو نظم ریاست کے خلاف ہو اور ہیئت اجتماعی کے باقاعدہ اِذن و اجازت کے بغیر ہو وہ خانہ جنگی، دہشت گردی اور فتنہ و فساد ہوتاہے، اسے کسی لحاظ سے بھی جہاد کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ جہاں تک کسی بدکردار مسلمان حکمران یا حکومت کو راہ راست پر لانے کے لئے جدوجہد کا تعلق ہے تووہ ہر گز منع نہیں ہے۔ مسلح جدوجہد اور بغاوت کی ممانعت سے مراد یہ نہیں کہ برائی نہ کہا جائے اور اسے روکنے کی کوشش نہ کی جائے یا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض ِ ایمانی کو ترک کردیا جائے ۔ احقاقِ حق اور ابطال باطل مسلمانوں پر واجب ہے۔ اسی طرح اصلاح معاشرہ اور ابلیسی قوتوں کا مقابلہ دینی فرائض میں سے ہے ۔ حکمرانوں اور نظامِ حکومت کی اصلاح کے لئے انہیں ظلم و جور اور فسق و فجور سے روکنے کے لئے تمام آئینی ، سیاسی ، جمہوری اور قانونی پر امن طریقے اپنانا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہیں۔ اعلاء کلمہٴ حق ، انسداد ِاستبداد اور بحالی نظام عدل کے لئے انفرادی، اجتماعی، تنظیمی اور جماعتی سطح پر تمام کاوشیں بروئے کار لانا فرائض ِ دین میں سے ہے۔(جاری ہے)
-5دہشت گردی کی تاریخ میں خوارج کا عنصر ناقابل ِ فراموش ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوارج کون تھے،ان کا شرعی حکم کیا ہے اور کیا موجودہ دور کے دہشت گرد خوارج ہی کا تسلسل ہیں؟
”خوارج “ دین اسلام کے باغی اور سرکش تھے۔ ان کی ابتداء عہد رسالت مآب میں ہی ہوگئی تھی۔ ان کی فکری تشکیل دورِ عثمانی میں اور منظم و مسلح ظہور دور علوی میں ہوا۔ ان خوارج کے اعمال و عبادات اور ظاہراً پابندی شریعت ایسی تھی کہ وہ صحابہ کرام سے بھی بعض اوقات زیادہ عابد و زاہد محسوس ہوتے لیکن حضور نبی اکرم کے واضح فرمان کے مطابق وہ اسلام سے کلیتاً خارج تھے۔ خوارج مسلمانوں کے قتل کو جائز سمجھتے ، ان کی رائے اور نظریہ سے اتفاق نہ کرنے کے باعث صحابہ کرام کی بھی تکفیر کرتے، نعرہ اسلامی ”لَا حُکْمَ اِلَّا لِلّٰہ“ بلند کرتے اور خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف مسلح خروج، بغاوت اور قتال کو نہ صرف جائز سمجھتے بلکہ عملاً اس کے ضمن میں قتل و غارت گری کرتے رہے۔ یہی خوارج در حقیقت تاریخ اسلام میں سب سے پہلا دہشت گرد اور نظم ریاست کے خلاف باغی گروہ تھا۔ نصوص حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ظہور ہر دور میں ہوتا رہے گا۔ گویا خوارج سے مراد لفظ وہی ایک طبقہ نہیں تھا جو خلافت ِ راشدہ کے خلاف نکلا بلکہ ایسی ہی صفات ،نظریات اور دہشت گردانہ طرز عمل کے حامل وہ تمام گروہ اور طبقات ہوں گے جو قیامت تک اسی انداز سے نکلتے رہیں گے اور مسلح دہشت گردانہ کارروائیاں جہاد کے نام پر کریں گے۔ یہ شرعی اعمال کی بدرجہ اَتم ظاہری بجا آوری کے باوجود فکر و نظر کی اس خرابی کے سبب اسلام سے خارج تصور ہوں گے۔ فرامین رسول کی روشنی میں ایسے لوگوں کو مذاکرات کے نام پر مہلت دینا یا اُنکے مکمل خاتمے کے بغیر چھوڑ دینا اسلامی ریاست کیلئے روا نہیں ،سوائے اس کے کہ وہ خود ہتھیار پھینک کر اپنے غلط عقائد و نظریات سے مکمل طور پر توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیں۔
-6ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ فتنہ انگیزی ، دہشت گردی اور مسلح بغاوت کے خاتمے کے لئے حکومت اور مقتدر طبقات کو کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں ؟
…حکومت اور مقتدر اداروں کو چاہئے کہ وہ ملکی اور عالمی سطح پر ایسے تمام محرکات اور اسباب کا تدارک کریں جن سے عوام الناس تشکیک کا شکار ہوتے ہیں اور دہشت گردی کے سرغنے کئی مضطرب اور جذباتی نوجوانوں کو آسانی سے اکسانے، ورغلانے اور گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں بلکہ انہیں دہشت گردی کیلئے تیار کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ دہشت گرد عناصر جن واقعات و حالات کو اپنے ناپاک ایجنڈے کیلئے بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں ان پالیسیوں میں واضح اور مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ان اسباب و محرکات کا بھی قطع قمع کیا جاسکے۔ اسی طرح اگر عالمی طاقتیں اور پاکستانی ایجنسیاں عوام کے حقیقی مسائل ، مشکلات اور شکایات کی طرف توجہ نہیں دیں گی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے دورخی پالیسی نہیں چھوڑیں گی ، اس وقت تک امن کی حقیقی بحالی محض خواب ہی رہے گی۔