• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی اور اس کا تدارک...ڈاکٹر محمد طاہر القادری

(آخری قسط)
آج بھی دہشت گرد خوارج کی طرح اسلام کا ہی نام لیتے اور اعلاء کلمہٴ حق کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن ان کے جملہ اقدامات اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں۔ جب ان کے حامیوں کے پاس ان کے جملہ اقدامات اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں۔ جب ان کے حامیوں کے پاس ان کے دفاع کے لئے کوئی شرعی دلیل نہیں رہتی تو وہ بات کا رخ حکمرانوں کے غیر شرعی کاموں اور عالمی طاقتوں کے ظلم و استبداد کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ اس طرح یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ دہشت گرد اگرچہ اقدامات تو غلط کر رہے ہیں مگر ان کی نیت درست ہے۔ یقینا یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے جس کا شکار آج کل پڑھے لکھے بھی ہیں اور اَن پڑھ بھی۔ برائی ہر صورت میں برائی ہے اور ظلم کی جو توجیہ بھی کریں وہ ظلم ہی رہے گا لہٰذا کوئی بھی فعل حرام نیت کے اچھے ہونے سے حلال نہیں بن سکتا کیونکہ شریعت اسلامی میں حکم عمل پر لگایا جاتاہے ۔ قتل ِ انسانیت ،جبر و بربریت ، دہشت گردی ، فساد فی الارض اور مسلح بغاوت کسی بھی نیک ارادہ و عزم کے باوجود قابل معافی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی رخصت کی گنجائش ہے لہٰذا دہشت گردوں اور ان کے بہی خواہوں کا یہ استدلال بھی شرعاً باطل ہے۔ چنانچہ اپنے دلائل کا آغاز ہم اسی مغالطے کی وضاحت سے کر رہے ہیں کہ حسن ِ نیت سے بدی کسی صورت بھی نیکی نہیں بن سکتی۔
حسن نیت سے بدی نیکی نہیں بن سکتی
اگر قتل و غارت اور تخریب کاری کے پیچھے کوئی نیک نیت اور اچھا مقصد کار فرما ہو، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس نیک نیتی کے باعث ظلم و بربریت کا عمل جائز قرار پا سکتا ہے؟ بعض لو گ یہ سمجھتے ہیں کہ خود کش دھماکے غلط سہی ، بے گناہ لوگوں کا قتل عام بھی برا سہی ، ملک میں فتنہ و فساد پھیلانا بھی حرام سہی، تعلیمی ، تربیتی ، صنعتی ، تجارتی اور عوامی فلاح و بہبود کے مراکز کو تباہ و برباد کرنا بھی گناہ عظیم سہی مگر کرنے والوں کی نیت نیک ہوتی ہے اور وہ یہ سب کچھ غیر ملکی ظلم وبربریت اور مسلمانوں پر کی جانے والی جارحیت کے ردّعمل کے طور پر جہاد سمجھ کر کرتے ہیں لہٰذا ان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ اس مختصر بحث میں ہم اس سوچ کا جائزہ قرآ ن و سنت کی روشنی میں لیں گے کہ قرب الٰہی کے حصول کی نیت سے کی جانے والی بت پرستی کو قرآن حکیم نے رد کردیا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن و سنت میں بڑی وضاحت و تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ تفہیم کے لئے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
” (لوگوں سے کہہ دیں) سن لو! طاعت و بندگی خالصتاً اللہ ہی کے لئے ہے ، اور جن (کفار) نے اللہ کے سوا (بتوں کو ) دوست بنا رکھا ہے ، وہ (اپنی بت پرستی کے جھوٹے جواز کے لئے یہ کہتے ہیں کہ ) ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں، بے شک اللہ ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ فرما دے گا ۔ جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، یقینا اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں فرماتا جو جھوٹا ہے ، بڑا ناشکر گزار ہےo“
مشرکین مکہ سے جب ان کی بت پرستی کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اس پوجا کے عوض اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کریں گے ۔ قرب الٰہی کے حصول کی نیت اچھی ہے مگر بت پرستی کفر و شرک ہے ۔ سو ایک اچھی خواہش اور نیک نیت کے باعث بت پرستی کے مشرکانہ فعل کو جواز نہیں مل سکا۔ اسی طرح دہشت گردوں کا دعویٰ اصلاح بھی قبول نہیں ہوگا کیونکہ دہشت گرد اپنے عمل سے اصلاح نہیں بلکہ خونریزی اور فساد انگیزی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی (ہوتا )ہے کہ جس کی گفتگو دنیاوی زندگی میں تجھے اچھی لگتی ہے اور وہ اللہ کو اپنے دل کی بات پر گواہ بھی بناتا ہے ، حالانکہ وہ سب سے زیادہ جھگڑالو ہے 0اور جب وہ (آپ سے )پھرجاتا ہے تو زمین میں ( ہر ممکن) بھاگ دوڑ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد انگیزی کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کردے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں فرماتا0 اور جب اسے اس ( ظلم و فسادپر ) کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اس کا غرور اسے مزید گناہ پر اکساتا ہے، پس اس کے لئے جہنم کافی ہے اور وہ یقیناً برا ٹھکانا ہے 0 “
ان آیات مبارکہ میں بھی یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ کئی لوگ ایسی گفتگو کریں گے جو ظاہری دلائل کے تناظر میں اچھی لگے گی۔ وہ لوگ اپنی نیک نیتی پر قسمیں کھائیں گے اور اپنے اچھے مقاصد اور نیک اہداف پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بھی بنائیں گے مگر ان کے ایسے قول و شہادت کے باوجود باری تعالیٰ نے انہیں فسادی اور شرپسند قرار دیا ہے اور ان کے لئے عذاب جہنم کا اعلان فرمایا ہے ۔ گویا ان شرپسندوں کی طرف سے اپنی نیتوں پر قسمیں کھانا اس لئے رد کردیا گیا کہ ان کا عمل واضح طور پر دہشت گردی اور فساد انگیزی پر مشتمل ہے لہٰذا ان کی مجرمانہ کارروائیوں کو ان کی نیتوں اور ارادوں کی صفائی میں کھائی گئی قسموں سے جواز اور معافی نہیں مل سکی۔ یہ قرآن مجید اور شریعت اسلامیہ کا بنیادی قاعدہ ہے۔ یہی نکتہ درج ذیل آیت کریمہ میں واضح کیا گیاہے؛
”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو ، تو کہتے ہیں : ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں (یعنی مصلحین ہیں ) 0آگاہ ہو جاؤ!یہی لوگ (حقیقت میں ) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں ( اس کا ) احساس تک نہیں 0“
آپ نے دیکھا کہ یہاں بھی اسی مفسدانہ ذہنیت اور مجرمانہ نفسیات کا ذکر ہے کہ فتنہ و فساد بپا کرنے والے کبھی اپنے عمل کو فساد نہیں سمجھتے بلکہ اسے اصلاح اور جہاد کا نام دیتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ بزعم خویش معاشرے میں خیر و صلاح لانے کے نام پر ظلم و سفاکی کی ساری کارروائیاں کرتے ہیں ۔ آج یہی المیہ ہے کہ دہشت گردی، قتل و غارت گری اور فساد انگیزی کے مرتکب لوگ ، مجرمانہ ، باغیانہ ، ظالمانہ، سفاکانہ اور کافرانہ کارروائیوں کو ملکی مفاد کے دفاع ، اسلام کی حفاظت اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف ردّعمل کے عنوانات کا جامہ ہائے جواز پہناتے ہیں۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح نیت کے اچھے ہونے سے فعل حرام جائز قرارنہیں پاسکتا ۔ ارادے کے نیک ہونے سے کفریہ فعل درست قرار نہیں پاسکتا اور مقاصد کے پاک ہونے سے ناپاک فعل طاہر و مطہر نہیں ہوسکتا، اسی طرح جہاد کی نیت اور ارادہ کر لینے سے فساد کبھی جائز نہیں ہوسکتا ۔دین اسلام کی حفاظت ، غیر ملکی جارحیت اور امت مسلمہ پر ہونے والی انصافیوں اور زیادتیوں کے انتقام کی نیت اور ارادہ کر لینے سے بے گناہ اور پر امن شہریوں کا قتل عام ، عوامی املاک ، مساجد اور آبادیوں کی تباہی و بربادی اور بے دریغ ظلم وبربریت کبھی حلال نہیں ہوسکتی ۔ اسی طرح احکام اسلام اور نظام عدل کے نفاذ کی نیت سے دہشت گردی اور قتل و غارت گری بھی جائز نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ان مذموم کارروائیوں کے لئے کوئی اسثناء یا معافی و رخصت کی صورت نکل سکتی ہے۔ ایسے باغیانہ اور مفسدانہ گروہوں کے بارے میں قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے۔” یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جدوجہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے رہے ہیں 0 “
قرآن و حدیث کے عمیق مطالعے سے یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اسلام جائز مقاصد کو صرف جائز طریقوں سے پانے، نیک اہداف کو صرف حلال وسائل سے حاصل کرنے اور پاکیزہ منازل تک صرف درست وسائط سے پہنچنے کی شرط عائد کرتا ہے ۔ پاک منزل کبھی پلید راستے سے نہیں ملتی ۔ مسجد کی تعمیر بڑا نیک کام ہے لیکن بینک میں ڈاکہ ڈال کر اس کی تعمیر کو کسی صورت جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ رحم کے مقاصد کبھی ظالمانہ طریقوں سے حاصل نہیں ہوتے اور مومنانہ عزائم کبھی کافرانہ روش سے پورے نہیں ہوتے۔ مختصر یہ کہ خیر ، خیر ہی کے طریق سے آتی ہے، شرکے طریق سے نہیں ۔ یہ اس دین کی عظمت اور طہارت ہے کہ اس نے منزل اور راستہ دونوں کی اصلاح و تطہیر کی ہے، مقصد اور طریقہ دونوں کو پاکیزہ اور مہذب بنایا ہے۔
جو لوگ اپنی ظالمانہ روش اور مذموم کردار کے جواز کے لئے انما الاعمال بالنیات( اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے ) سے استدلال کرتے ہیں ، ان کی تمام تاویلات فاسد اور باطل ہیں۔ وہ کبھی غلط کام کو درست نہیں کر سکتیں اور اس حدیث نبوی ﷺ کا تعلق صرف ان اعمال سے ہے جو بظاہر جائز، مشروع اور صالح ہوں۔ اس حدیث نبوی ﷺ کا تعلق صرف ان اعمال سے ہے یعنی اگر نیت میں اخلاص ہے تو عمل قبول ورنہ رد کردیئے جائیں گے۔ اگر نیت اچھی نہیں ہوگی یا مطلوبہ نیت مفقود ہوگی تو وہ اعمال ظاہراً اچھے ہو کر بھی عبادت نہیں بنتے۔ وہ مردود ہو سکتے ہیں یا بے اجر ہوسکتے ہیں ۔ مگر جو اعمال اپنے وجود میں ہی ممنوع ، ظلم ، حرام یا کفر ہوں ، انہیں اچھی سے اچھی نیت بلکہ کئی اچھی نیتیں مل کر بھی مقبول ، جائز یا ماجور نہیں بنا سکتیں۔یہ ایسامتفقہ شرعی کلیہ اور اسلامی قاعدہ ہے ، صحابہ و تابعین سے لے کر فقہا ء و محدثین اور علماء و محققین میں سے کسی نے بھی تاحال اس سے کبھی اختلاف نہیں کیا۔ نیز انما الاعمال بالنیات کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ نیتوں کے مطابق ہی اعمال کا صدور ہوتا ہے یعنی جیسی نیت اور ارادہ ہوگا ویسے ہی افعال سرزد ہوں گے۔ چنانچہ ایک دہشت گرد کی قتل و غارت اور لوٹ مار اس کے خبث نیت یعنی اس کے مذموم عقائد و نظریات کی غماز ہے کہ صالح نظریات کی۔ ظلم و ستم اس کی سنگ دلی کی علامت ہے نہ کہ رحم دلی کی لہٰذا باغی ، مجرم ، شرپسند ، ظالم اور جابرلوگ اپنی غلط کارروائیوں کے جھوٹے جواز کیلئے جو چاہیں تاویلات وضع کرتے رہیں ان کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
تازہ ترین