• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی عوام نے اپنا ووٹ دے کر جنہیں ایوانوں اور حکومتوں میں بھیجا ان میں سے کئی تو سیاسی داؤ پیچ میں یا اپنے ذاتی یا جماعتی مفادات کے تحفظ میں مصروف رہتے ہیں۔ پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کو درپیش انتہائی اہم معاملات سے خود ان ہی کے منتخب نمائندوں کی اکثریت لاعلم یا لاتعلق نظر آتی ہے۔ اس لاتعلقی کی مثالیں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں زیادہ نمایاں ہیں۔ پاکستان اپنی نئی نسل کو اسکولوں میں بھیجنے اور انہیں بنیادی تعلیم فراہم کرنے میں دنیا کے اکثر ملکوں سے پیچھے ہے۔ صحت کے شعبے میں بھی صورت حال بہت افسوسناک اور نہایت تکلیف دہ ہے۔ ستمبر 2016ء میں صحت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 188ملکوں کی فہرست میں پاکستان 149 نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف امیر اور ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں بلکہ ہم سے کہیں کم وسائل رکھنے والے دنیا کے کئی ممالک اپنے عوام کی صحت کی ہم سے بہتر دیکھ بھال کررہے ہیں۔
پاکستان میں کئی برسوں سے جاری کرپشن اور بدعنوانیوں کے نچلی سطح تک پھیل جانے کے نتائج عام آدمی کے لئے بہت تکلیف دہ حالات میں سامنے آرہے ہیں۔ بجٹ میں اربوں روپے رکھے جانے کے باوجود حکومت کے زیر انتظام اسپتال، ڈسپنسری اور صحت کے دیگر مراکز سے عوام کو علاج معالجے کی جو سہولتیں مل رہی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ کہیں ڈاکٹر موجود نہیں، کہیں ایکسرے اور دیگر تشخیصی آلات کام نہیں کر رہے۔ اکثر سرکاری علاج گاہوں میں مریضوں سے کہا جاتا ہے کہ دوائیں یا زخموں کے لئے مرہم پٹی کا سامان بازار سے خرید کر لائیں۔ ملک میں وفاقی، صوبائی حکومتوں یا بلدیاتی اداروں کے زیر انتظام چند اسپتال مریضوں کو اچھی خدمات بھی فراہم کر رہے ہیں لیکن ایسے اچھے اسپتالوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔
رونا صرف اکثر سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کا ہی نہیں ہے۔ حکومتی اداروں کی طرف سے کئی امور میں چشم پوشی، غفلت یا بدعنوانیاں عمومی طور پر صحت کی خرابیوں کا سبب بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان، حیدرآباد، پشاور، کوئٹہ اور پاکستان کے سرسبز شہر اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں روز بہ روز بڑھتی ہوئی آلودگی کئی امراض کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ ان امراض میں دمہ، سانس لینے میں گھٹن، پھیپھڑوں کے دیگر امراض حتیٰ کہ پھیپھڑوں کا کینسر، جلدی امراض اور کئی اقسام کی الرجیز شامل ہیں۔ فضائی آلودگی امراض قلب اور فالج کا سبب بھی بن رہی ہے۔ یہ سب باتیں حقیقت پر مبنی ہیں لیکن قومی سطح پر خرابی صحت کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ ہمارا سوشل مائنڈ سیٹ بھی ہماری کئی مشکلات اور پریشانیوں کا سبب ہے۔
کم تعلیم یافتہ، محدود نظر یا توہماتی روایات پر چلنے والے معاشروں میں (افسوس کہ ان میں پاکستان بھی شامل ہے) کئی خیالات اور ناقص نظریات بھی کئی سماجی مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ برصغیر میں ذات برادری کی وجہ سے علم اور ترقی مخالف کئی روایات، نواب، وڈیروں کی حاکمیت، ان کے حمایتی سماج کے بعض ٹھیکے داروں کا اپنے عوام کی سوچ پر غلبہ جیسے معاملات معاشرے میں اچھائیوں کے فروغ اور عوام کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ انسانی سوچ دریا کے بہتے ہوئے پانی کی طرح رواں رہنی چاہیے۔ انسان کے ذہن میں نئے نئے علوم کے لئے آمادگی اور انہیں سمونے کے لئے کشادگی ضروری ہے۔ یہ آمادگی اور کشادگی نہ ہو تو معاشروں میں بے عملی، گھٹن اور تنگ نظری پھیل جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں فروغ علم اور صحت بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔ اپنے معاشرے کو تعلیم یافتہ اور صحت مند بنانے کے لئے ہمیں قومی سطح پر مثبت مائنڈ سیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا مائنڈ سیٹ جو اعلیٰ روایات اور جدت کا امتزاج ہو۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ بعض معاشرے قدیم و جدید کے حسین اور فیض رساں امتزاج کے بجائے قدیم اور جدید میں تصادم کی طرف چل پڑتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں لوگ ایسی ہی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے منفی اثرات ہمیں تقریباً ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔ حکومتی غفلت یا چشم پوشی اور کئی سماجی اداروں کی غیر ذمہ داریوں کے سبب پاکستان میں نہ صرف متعدی (Infectious) بلکہ غیر متعدی (Non-infectious) کئی بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔
متعدی امراض میں ہیپاٹائٹس بی اور سی، ملیریا، ٹی بی، ٹائیفائیڈ، ڈینگی بخار، چکن گونیا وغیرہ ۔ غیر متعدی امراض میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، امراضِ قلب، جوڑوں کے درد کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ڈپریشن اور کئی دوسرے اعصابی امراض سے نہ صرف بزرگ اور نوجوان بلکہ بچے بھی متاثر ہورہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مناسب تدابیر اختیار کرکے عوام کی بڑی تعداد کو مندرجہ بالا امراض سے بچایا جاسکتا ہے۔ بیماریوں کے علاج اور لوگوں کو امراض سے بچانے کی سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر ہے۔ حکمرانوں یا حکومتی اداروں سے شکایات بجا لیکن صحت عامہ کے تحفظ کے لئے معاشرے کی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے سماجی ادارے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں کررہے۔ ان میں اسکول، مدرسہ سمیت تعلیمی ادارے۔ اخبارات، رسائل، ریڈیو اور ٹی وی سمیت ابلاغ کے ادارے۔ خاندان، کنبہ، برادری سمیت عائلی ادارے بھی شامل ہیں۔حکومت اور معاشرے کی طرف سے اپنی اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ اور ٹی بی کے مریضوں کی تعداد 3لاکھ ہے، ہر سال 5 لاکھ افراد ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوتے ہیں ، دمہ اور سانس کی دیگر بیماریوں اور پھیپڑوں کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کی 40فیصد آبادی کو ہائی بلڈ پریشر اوردل کے امراض لاحق ہیں۔ گردوں کے مریضوں کی تعداد 2کروڑ ہے جبکہ 75 لاکھ سے 3کروڑ پاکستانی ذیابیطس میں مبتلا بتائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں خاص طور پر نوجوان نسل میں ایک بہت سنگین مسئلہ منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ منشیات کی یہ وبازیادہ تر تعلیمی اداروں کے ذریعے پھیل رہی ہے۔
عوامی سطح پر ایک بہت بڑی رکاوٹ صحت کے امور سے ناواقفیت اور لاپروائی بھی ہے۔ ہمارے ملک میں کروڑوں خواتین کو ہڈیوں کی کمزوری سے متعلقہ مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کا ایک بڑا سبب پرورش اور تعلیم وغیرہ میں لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح دینے والی سوچ بھی ہے۔ بچپن میں کیلشیم اور آئرن کی کمی رہ جائے تو پینتیس سال کی عمر کے بعد ایسی اکثر خواتین کو ہڈیوں کی کمزوری، جوڑوں کے درد، دانتوں کی بوسیدگی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ بچوں کی پرورش میں مناسب غذائیت کا خیال رکھنا حکومت کی نہیں والدین اور اہل خانہ کی ذمہ داری ہے۔ ان امور پر والدین کو زیادہ سے زیادہ آگہی فراہم کرنا تعلیمی اور ابلاغی اداروں کا کام ہے۔
عوام کو درپیش صحت کے مسائل کا جائزہ لینے، والدین کو خود اپنی اور اپنی اگلی نسلوں کی صحت کے لئے اقدامات پر آمادہ کرنے اور اسی طرح کے دیگر اقدامات کے لئے قومی اور صوبائی سطحوں پر ہیلتھ آڈِٹ کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اس ہیلتھ آڈِٹ میں نہ صرف سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے بلکہ صحت کی بہتری کے لئے سماجی شعور کو بیدار اورمتحرک کرنے کے اقدامات بھی تجویز کئے جائیں۔

تازہ ترین