• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایوب خان کو راولپنڈی سازش کیس کی بھنک کیسے پڑی؟؟....کڑوا سچ…طارق بٹ

ایک نئی کتاب میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں مثلاً یہ کہ انہیں راولپنڈی سازش کیس کا سراغ کیسے ملا اور انہوں نے اس سازش کو کیسے ختم کیا؟ صدر اسکندر مرزا نے کیسے فضائیہ کے ایک افسر کو یہ حکم دیا کہ وہ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پاکستان آرمی کے تین جنرلوں کو گرفتار کر لے۔ ایوب خان کو کیسے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا اور سیاست دانوں کا ملک کے فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں میں جانے سے قبل مجموعی رویہ اور کارکردگی کیا تھی؟ 315 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ایوب خان کے غیر مطبوعہ انٹرویوز اور گفتگو کا انتخاب پیش کیا گیا ہے جن کا اہتمام 1964ء سے 1967ء کے درمیانی عرصے میں، ان کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر اور ان کے سیکریٹری این اے فاروقی نے کیا تھا۔ اسی کتاب میں آرمی افسران سے ایوب خان کے خطابات بھی شامل ہیں۔ شجاع نواز نے جو واشنگٹن میں مقیم ہیں، اپنے تعارف میں لکھا ہے کہ ایوب خان نے پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ترقی اور معاشی منصوبہ بندی کی بنیاد تو ڈالی لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پاکستان کے دولخت ہونے کا بیج بھی بویا اور ملک کو فوجی آمریت کے شکنجے میں کس دیا۔ایوب خان کا کہنا ہے کہ ”جب وہ محاذ کشمیر کے دورے پر تھے تو انہیں راولپنڈی سازش کیس کے بارے میں سراغ ملا۔ میں نے محسوس کیا کہ میجر جنرل اکبر خان کا رویہ کچھ بدلا بدلا سا ہے۔ اکبر خان اور ان کے ایک ساتھی میجر جن کا نام اسحاق تھا، اس سازش کیس کے اصل منصوبہ بند تھے۔ یہ دونوں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ ان دونوں کے خیالات اور تاثرات نہایت منفی اور تشویش ناک ہوا کرتے تھے۔ جب 1951ء میں راولپنڈی سازش کا واقعہ پیش آیا تو لیاقت علی خان پاکستان کے وزیراعظم اور خواجہ ناظم الدین پاکستان کے گورنر جنرل تھے۔ سازش کے مطابق ان دونوں حضرات کی گرفتاری کے بعد اکبر خان ایک نئی حکومت تشکیل دیتے جو عام انتخابات کا انعقاد کرتی۔ جب میں پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ کا عہدہ سنبھال رہا تھا تو جنرل گریسی نے یہ ریمارکس دیئے کہ پاکستان کی بری فوج میں ”ینگ ترک پارٹی“ کے نام سے ایک طبقہ موجود ہے۔ بہرحال میں نے ان کے اس ریمارکس پر سنجیدہ توجہ نہیں دی کیونکہ مجھے پورا یقین تھا کہ پاکستان آرمی میں کوئی بھی ایسی حرکت کرنا گوارا نہیں کرے گا۔ بعض چیزوں کے بارے میں جو صحیح نہ ہوں، شکایت تو کی جا سکتی ہے تاہم مجھے یہ یقین بالکل نہیں تھا کہ وہ اس طرح کا اقدام بھی کرسکتے ہیں۔ ایوب خان نے کہا کہ جب انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور انہیں فوجی افسروں کی ترقی کی بابت جن میں میجر جنرل اکبر خان بھی شامل تھے، چند فیصلے کرنا تھے تو انہوں نے سوچا کہ اگر یہ افسر کسی ڈویژنل کو کمانڈ کرتا ہے تو یہ ایک بڑا خطرہ مول لینے کے مترادف ہوگا اور پھر یہ بھی کہ میں انہیں اپنے قریب ہی رکھنے کا خواہشمند تھا چنانچہ میں نے جنرل ہیڈ کوارٹر میں جنرل اسٹاف کے چیف کی حیثیت سے ان کی تقرری کردی۔ میں ان کے خاندان سے اچھی طرح واقف تھا جو بلاشبہ بہت عظیم لوگوں پر مشتمل تھا تاہم یہ لوگ قابل اعتبار نہیں تھے … اس تمام عرصے کے دوران ہم ہر قسم کے ترقیاتی منصوبوں میں مصروف رہے جن میں سے ایک راشن کی فراہمی کا معاملہ تھا تاکہ جب ہمارے فوجی دشمن کے علاقے میں پھنس جائیں اور ہم سے ان کا مواصلاتی رابطہ منقطع ہوجائے تو کم از کم وہ ایک ہفتے تک تو اس راشن پر گزارہ کر سکیں … ایوب خان نے یہ معاملہ میجر جنرل اکبر خان کے سپرد کردیا تاہم جب کبھی ان سے اس معاملے پر کسی پیش رفت کی بابت پوچھا گیا تو ایوب خان کو یہی اطلاع دی گئی کہ میجر جنرل اکبر خان آزاد کشمیر میں ہیں۔ دراصل وہ کشمیر میں ایک فوجی یونٹ بنانے میں مشغول تھے تاکہ اس کے ذریعے وہ راولپنڈی میں میرا اور دوسرے لوگوں کا گھیراؤ کر سکیں … ان کی نقل و حرکت کافی مشتبہ تھی اور ان کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہ تھی۔ اور دراصل یہی وہ لمحہ تھا جب میرے دل میں، ان کی جانب سے شکوک و شبہات نے جنم لیا ۔ مجھے یہ سوچ سوچ کر تعجب ہو رہا تھا کہ، یہ آدمی واقعی اس عہدے کا مستحق ہے بھی یا نہیں اور کیا وہ اس کام کے لئے موزوں ہوگا؟ وہ اپنے کام پر قطعاً کوئی توجہ نہیں دے رہے تھے۔ بہرکیف آگے چل کر یہ بات صاف اور واضح ہوگئی اور ان کا یہ رویہ بھی کھل کر سامنے آگیا کہ اپنا تمام وقت وہ سازش میں صرف کرتے رہے ہیں۔ایوب خان مزید کہتے ہیں کہ راولپنڈی سازش انتہائی تکلیف دہ اور افسوسناک تھی کیونکہ یہ سب کے سب اچھے فرسٹ کلاس آرمی افسران تھے جن کی اکثریت کو دوران جنگ کارکردگی پر شجاعت اور بہادری کے تمغہ جات سے بھی نوازا گیا تھا۔ بہرکیف پاکستان آرمی کو ان افسروں سے محروم ہونا پڑا تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ آرمی میں ہونے والی یہ سازش، اعصاب کو ہلادینے والی تھی۔ چنانچہ جب ایک مرتبہ مجھے یہ یقین ہوگیا کہ اس کینسر کا جڑ سے خاتمہ کرنا ضروری ہے تو میں اس کے بارے میں زیادہ متفکر نہیں رہا۔ تاہم یہ حقیقت کہ آرمی کو اتنا بڑا دھچکا لگا ہے، یہ بات واقعی نہایت پریشان کن تھی۔ بہر طور میری طرف سے اس سلسلے میں کسی سفاکی اور بے رحمی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ ہاں میں نے یہ ضرور کیا کہ حقیقت کا پتہ لگایا جائے اور اس سلسلے میں قانونی راستے کا انتخاب کیا۔ایوب خان کا یہ خیال تھا کہ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت لیڈر شپ مکمل طور سے ٹوٹ چکی تھی۔ ملک میں کوئی سویلین لیڈر نہیں تھا، جبکہ فوجی میدان میں ماسوائے چند برطانوی افسروں کے اور کوئی بھی نہ تھا جو فطری طور پر ہمارے ملک میں پیش آنے والے حالات سے نمٹنے کے عادی نہیں تھے جس کے لئے بڑے انقلابی فیصلے اور اقدامات کرنا ضروری ہوتے ہیں۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ کشمیر کی جنگ، ابتدائی مرحلوں میں بڑی بے دلی سے لڑی جا رہی تھی اور سپاہی اور افسران سارے فیصلے خود ہی کر رہے تھے اور ان کا رویہ بھی بڑا غیر مناسب تھا۔ جنرل اکبر خان کا شمار بھی انہی میں ہوتا ہے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ بعض نوجوان اور ناقابل اعتماد فوجی افسران کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی تھی جو ہر وقت ان کے سروں پر سوار رہتی تھی۔ مارشل لاء نافذ کرنے کے فوراً بعد ہی جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا اور 7 اکتوبر 1958ء کے آئین کو منسوخ قرار دے دیا گیا، جس کے بعد اس وقت کے صدر جنرل اسکندر مرزا نے پاک فضائیہ کے ایک افسر ایئرکموڈور رب کو حکم دیا کہ وہ پاکستان آرمی کے تین جنرلوں کو فوری طور پر گرفتار کر لے۔(جاری ہے)
تازہ ترین