راولپنڈی (نمائندہ جنگ)انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر ایک راولپنڈی کے جج محمد اصغر خان نے بے نظیر بھٹو قتل کیس میں سابق سی پی او اور ایس پی سمیت تین ملزمان کے وکلاء کی بحث مکمل ہونے کے بعد سماعت آج منگل تک ملتوی کردی، آج دیگر ملزمان کے وکلا اپنی بحث کریں گے، پیر کے روز بے نظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سابق سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کے وکیل ملک رفیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کا ایک اہم ملزم سابق صدر پرویز مشرف جو بیرون ملک ہے عدالت نے ان کی ضمانت کیوں منظور کی، کیوں انہیں حاضری سے مستثنٰی قرار دیا گیا اور کیوں انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت ملی ۔ملک رفیق احمد کی بحث مکمل ہونے کے بعد ایک گرفتار ملزم رشید احمد ترابی کے وکیل رائو عبدالرحیم نے بھی اپنی بحث مکمل کرلی جس کے بعد عدالت نے سماعت آج 29اگست تک ملتوی کردی۔ سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت کے دوران گرفتار ملزم رشید احمد ترابی کے وکیل رائو عبدالرحیم نے طویل دلائل کے دوران کہا کہ دو بار کی وزیراعظم کے قتل کیس کی تفتیش میں استغاثہ نے انتہائی عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنیادی باتوں کو دانستہ یا غیردانستہ طور پر نظر انداز کیا، انہوں نے کہا کہ تقریباً دس برس پرانے اس قتل کی تفتیش میں محترمہ کے لواحقین کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ آج تک پیپلزپارٹی کی طرف سے کسی وکیل نے اس کیس کی پیروی نہیں، رائو عبدالرحیم نے کہا کہ 27دسمبر کو پیش آنے والے اس واقعہ کے اگلے روز بریگیڈیئر جاوید اقبال نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ آئی ایس آئی نے ایک کال ٹریس کی ہے جوکہ بیت اللہ محسود اور ایک کمانڈر کے درمیان تھی اگر بریگیڈئر صاحب کی اس بات کو صحیح مان لیا جائے تو 17سیکنڈ کی کال کرنے اور سننے والے کو ملزم بناکر نہ شامل تفتیش کیا گیا نہ کہیں ان کی گواہی سامنے آئی،انہوں نے کہا کہ محترمہ کے سکیورٹی افسر میجر امتیاز کو بھی کسی نے شامل تفتیش نہیں کیا اور یہ نہیں پوچھا کہ جب یہ بات طے پا چکی تھی کہ اگر کوئی گاڑی کے نیچے بھی آجائے تو نہ گاڑی رکے گی نہ گاڑی سے کوئی باہر نکلے گا پھر میجر امتیاز نے گاڑی کا ہیچ کیوں کھولا ۔ خالد شہنشاہ جو بعدازاں کراچی میں مارا گیا وہ بھی بینظیر کی گاڑی میں سوار تھا اس سے بھی کسی نے تفتیش نہیں کی، رائو عبدالرحیم نے کہا کہ بینظیر کی گاڑی کو بیک کرنے والی گاڑی میں رحمان ملک، بابر اعوان اور دیگر سوار تھے جن کی ذمہ دای یہ تھی کہ اگر محترمہ کی گاڑی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوجاتا ہے تو وہ دوسری بم پروف گاڑی میں سوار ہوں گی مگر ہوا اس کے برعکس جونہی بینظیر بھٹو کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تو بیک اپ کرنے والی گاڑی میلوں کا سفر کر چکی تھی جب بینظیر کی گاڑی سول ہسپتال کے قریب پہنچی تو اس وقت تک بیک اپ والی گاڑی زرداری ہائوس پہنچ چکی تھی انہوں نے کہا کہ یہ بات ٹیلی فون ریکارڈ میں ثابت ہے اور استغاثہ کے گواہ نے اس بات کو تسلیم بھی کر رکھا ہے پھر بیک اپ گاڑی میں سوار لوگوں سے تفتیش کیوں نہیں کی گئی۔